1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید حسین عباس/
  4. بھارت میں اچھوت کی کہانی

بھارت میں اچھوت کی کہانی

جب انگریزوں سے آزادی ملنے کا وقت آیا تو ملک دو غیر مَساوی حصّوں مِیں تقِسیم کر دیا گیا۔ جب ایک مسَلمانوں کی بنیاد پر ہوا تو دوسْرا خود بخود غیر مسْلم کی بنیاد پر رہ گیا۔ دو قومی نظریہ بتا رہا تھا کہ ہندوسْتان مِیں دو قومِیں آباد ہیں ایک ہندو اور دوسْری مسَلمان۔ یِہ بیَانیَہ ہی غیر منصفانَہ ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہِہ ہندو ستان ہندوؤں کا ملک تھا۔ اور مسَلمان کِہیں باہر سے آئے (قابض) تھے۔ شائداسیلئے کَہا جَاتا ہے کہ مورخ وہ لکھتا ہے جو اس سے اقتدارلکھواتا ہے۔ کچھ اسی طرح بھَارت کی تاریخ لکھنے مِیں ہوا۔ پہلی بات یِہ کہ بھارت مِیں اس وقت کی کانگرِیْس نے بَھارت کی اصَل آبادی کو ہندوستان کے پیچھے چھپادیا۔ اسمیں ان کا فائدہ یَہ تھا کہ ہندو کی نام نہاد اکثریّت بتا کر انہوں نے پورا ملک ہندوؤں کی ملکیّت ثابت کیَا۔ اسی بنَیاد پر ہندو اپنے ملْک کی تقِسیم پر آج تک ناراض ہے۔ اور پاکِستان کو تسْلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
جبَکہ حقَائق اس سے مختلف نظَر آتے ہیں۔ بھَارت ایک ملک تھا۔ جسمیں آبادی کے تناسب سے ساڑھے تین فیصد (سناتن دھر م کے) برہمن تھے۔ جو تین ہزار برس پہلے بھارت میں آئے۔ چونکہ ان کی اصل یہودی تھی اس وجہ سے انہوں نے آبادی کوکسی قسم کی تبلیغ نَہ کی۔ بلکہ مقامی آبادی کی معصومیت اور سادگی کا فائدہ اٹھَاتے ہوئے۔ رکھ رکھَاو سکھاتے ہوئے انکو بَہلا پْھسلا کراپنا غلام بنَا لیَا۔ یہَاں کے لوگ فِطری طور پر لڑاکو اور جنگ جو نہیں تھے۔ اسلیئے با آسانی ان کے فَریب مِیں آگئے۔ برہمنوں نے ان کیلئے ایک کلَچر تخلیق کیَا۔ اور پوجنے کیلئے بھگوان بنا کر دئے۔ حَالانکہ برہمنوں کے ہاں مورتی پوجَا کی کوئی جگَہ نہِیں ہے۔ شائد انہوں نے بت پرستی کی اپنی وہ آرزو پوری کی جیسا کہ یہودیوں نے حضرت موسٰی سے خواہش کی تھی کہ انکے لیئے بھی ایک بت بنا دیا جائے۔ جسپر حضرت موسٰؑی ناراض ہوئے تھے۔
اس سے پہَلےبھَارت مِیں بُودھ مذہب کے اثرات تھے۔ مَگر ایَسا لگتَا ہے کہ بودھ مذہب کے بڑے، عوام پر قبضَہ کرنے کے حق مِیں نہیں تھے۔
برہمنوں نے جب عوام پر اپنا پوراقبضَہ کر لیا تو انہی عوام کے ذریَعہ ُبودھوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ یہَاں تک کہ نوبت قتل عَام تک پہنچ گئی۔ بالکل اسے طَرح جیسے آجکل ہجوم کرکے مسَلمانوں کو قَتل کیَا جَارہا ہے۔
(Mob-lynching)۔ نتیجے کے طور پر آہستہ آہستہ بودھوں کو بھارت سے نکالدیا۔ فقط ان کے آثارِ قدیمَہ رہ گئے۔ جیسے آجکل ہر کسی کو پاکستان کی طرف ڈھکیَلنے لگتے ہیں۔ (یہاں ذرا مختلف یِہ ہے کہ آج کے برہمن مَسلمانوں کے آثار قدیمَہ بھی مٹادینا چاہتے ہیں)۔ ان برہمنوں کا دوہزار سال سے یہی طَریقَہ ہے۔ دنیَا مِیں بھَارتی، آتنتواد کا بڑا شور کرتے ہیں۔ مَگر ان کا آتنتواد(دہشتگردی) تو بودھوں کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ جب برہمنوں نے بھارت کے عوام پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لیئے ان کو بانٹو اور حکومت کرو(Divide & rule) یِہ یہودیوں کا پرانا اصول ہے۔ مغَرب نے جہَاں بھی کہِیں اپنی کالونی(نو آبادی) بَنائی۔ مقامی آبادی کو اسی اصول پر تقسیم کیا اور راج کیا۔ عوام مِیں مختلف خاندان اور قبائل تو ہوتے ہی ہیں، اسی کا فائدہ اٹھَا کر، بانٹو اور حْکومت کرو کے اصول کا استعمال کیَا۔ لہٰذا، برہمنوں نے اتنی بڑی آبادی کو تقسِیم کرنے کے لیئے ان کو چھ ہزار ذاتوں اور قبَائل مِیں تقسِیم کردیا۔ آج کل ان آبادیوں کے نام sc، st، obc، Aadi vasi، mulnevasi، ہیں۔ اور ان کے انسانی حقوق پر اسطرح ڈاکہ ڈالا کہ ان کو کیا کرنا ہے کیا پیشہ اختیار کرنا ہے۔ انپر اپنا حکم ٹھونسا اور ان کو اچھوت (Untouchable) کا اسٹیٹس دے دیا۔ حَد یِہ کہ ان کو پڑھنے لکھنے کا بھی حق نہیں ہے۔ برہمن نے انکو سکھایا ہے۔ کہ، کو بھگوان نے شودر، اچھوت کو برہمن کی خدمت کیلئے پیداکیا۔ باقی (آرام) بھگوان، مرنے کے بعد دے گا۔
اس طرح برہمنوں نے پوری آبادی کو(اپنی ملکیت کے طور پر) غلام بنا لیا۔ جب انگریزوں نے بھارت پر قبضہ کیَا تو سَاری آبادی کے سَاڑھے تین فیصَد برہمن غلام ہو گئے بقَیہ پچّاسی فیصد تو پہلے ہی برہمن کے غْلام تھے۔ سَاڑھے بارہ فیَصدمَیں، مسَلمان، سِکھ، عیِسائی، لنگائت وغیرہ آتے ہیں۔
بھارت مِیں رہنے والے مسَلمانوں نےبھی ذات پات کا اثر لیا اور اسلامی تعلیمات سے دور رہے اور انہوں نے بھی غیر مسلم آبادی سے وہی برہمنوں والا برتا ؤ کیا۔ ایک تو یِہ بقول شا عر سیّد، بھی تھے، مرزا بھی تھے، افغان بھی تھے، پر مسلمان نَہ تھے۔ یوپی، بہا ر، مِیں تو خاص طور سےغرور انکا طرّہ امتیاز تھا۔ پچّاسی فیصد دبے اور کچلے ہوئے لوگ برہمنوں ہی سے تنگ تھے تو بھلا ایسے مسلمانوں کے قریب کیسے آتے۔ اگر مسلمان قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے مقابلے مِیں دسویں حصّے کے بھی ایمان والے ہوتے تو بھارت کی تقسیم کی ضرورت پیش نَہ آتی۔ اول تو مسلمانوں کو یہ پتا ہی نہ چلا کہ برہمن صرف ساڑھے تین فیصد ہے۔ اور بقیہ پچّاسی فیصد زبر دستی کے ہندو بنائے ہوئے ہیں۔ جب برہمن نے انکو ویدا (سناتن دھرم کی کتاب)سے دور رکھا۔ جَنیو (سناتن دھرم کا نشان) پہننے کی اجَازت نَہ دی۔ اپنے قریب آنے سے دور رکھنے کیلئے اچھوت (Untouchable) کا درجہ دیا۔ اسطرح ان لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا تو ناممکن ہو گیا۔ پھر یہ لوگ ہندو کیسے ہو گئے؟ برہمن نے جو دیوی دیوتا اور بھگوان بنا کر دیے۔ وہ برہمنوں کے دھرم سے قطعی مختلف ہیں۔ برہمنوں کے ہاں مورتی پوجا منع ہے۔
اسطرح برہمنوں اور اچھوتوں کا دھرم الگ الگ ہے۔ لِہٰذا برہمن ہندو ہے اچھوت ہندو نہیں ہیں۔ بھارت کا سپریم کورٹ بھی انکو ہندو نہیں مانتا۔ مگر برہمن اچھوتوں کو ہندو اسلیئے کہتے ہیں کہ ان کو ملا کر برہمنوں کی تعدادساڑھے تین فیصد سے بڑھ کر ساڑھے اٹّھاسی فیصد ہو جاتی ہے۔ اور اسی بنیاد پر بھارت کو ہندوستان کہنے مِیں برہمنوں کو ہندو اکثریت دکھانا آسان ہو گیا۔ جبکہ اچھوت ممبر پارلیمنٹ کو صرف ووٹ دینے کا حق ہے مگر پارلیمنٹ مِیں اچھوتوں کے لیئے بولنے کا حق نہیں ہے۔ ستّر برس سے ان اچھوتوں کی مردم شماری نہیں کی گئی۔ اور کوئی اچھوت ممبر یہ بھی نہ کرا سکا۔ کہ معلوم ہوتا کہ اچھوت اب کتنی اکثریت میں ہیں۔ جمہوریت کے مطابق حکمرانی کا حق اکثریت کو ہے۔ جبکہ برہمن ستّر سال سے اپنی فراڈ اکثریت کے سبب اقتدار پر قابض ہے۔
برہمن کے اس فراڈ کو مسلمان نَہ سمجھ سکے۔ اور برہمنوں کی اکثریت کو مان لیا۔ اب حساب لگانے پر مسلمان ڈھائی فیصد رہ گئے۔ برہمن خود تو لڑتا نہیں ہے۔ مگر اچھوت کو اسنے یقین دلادیا ہے کہ اچھوتوں کی ہر مشکل کا سبب مسلمان ہیں لِہٰذا مسلمانوں کو قتل کرو۔ انکی مسجدوں کو توڑ دو کیونکہ یہ مندر کے اوپر بنائی گئی ہیں، اور آجکل مسلمانوں سے دشمنی کی وجَہ یِہ ہے کہ انہوں نے مذہب کی بنیاد پر بھارت کو تقسیم کرا دیا۔ نئے بھارت مِیں گاندھی کا قاتل گوڈسے ہیرو مانا جاتا ہے۔ حَالانکہ گوڈسے بھَارت کی تاریخ مِیں پہَلا دہشتگرد تھا۔
بہوجن مکتی مورچہ اورbamcef کے صدر مسٹر وامن میشرام کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے مذہب کے مطابق مظلوم کی مدد نَہ کی بلکہ بھارت کو ہندوستان مان کر ساڑھے تین فیصدبرہمنوں کو ساڑھے اٹھّاسی فیصد مِیں تبدیل کر دیا۔ جسِکی وجَہ سے ۱۵ فیصد مسلمان اپنے آپ کو اقلیّت سمجھنے لگے۔
وامن میشرام کا کہنا ہے کہ انگریز کو بھارت چھوڑ کر ستّر برس ہو گئے۔ مگر ہم جنکو برہمن نے اچھوت کےنام سے ذلیل کر رکھّا ہے۔ آج بھی برہمن کے غلام ہیں۔ اگر مسلمانوں نے ہمارا ساتھ دیا ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہو چکے ہوتے۔
برہمنوں کے ظلم سے تنگ آکر جنکو موقع ملا انہوں نے دوسرے مذاہب میں پناہ لےلی۔ بہت سے مسلمان ہو گئے۔ بہت سے عِیسائی ہو گئے۔ کچھ گرو نانک کے ساتھ ہو کر سکھ ہو گئے۔ سکھوں کے مطابق جب گرو نانک ابھی صرف چھ سال کے تھے برہمن نے ان سے کہا کہ " تم جِنیو پہنا کرو" گرو نے پوچھا کیوں؟ برہمن نے کہا کہ جَنیو پہننے سے لوگ تم کو اونچی ذات کا مانیں گے۔ گرو نانک نے کہا آدمی اپنے اچھے خیالات سے اونچا ہوتا ہے۔ اور ذات پات کی نفی کی۔ جو لوگ سکھ ہو گئے تھے ان پر برہمنوں کے مظالم کم نہ ہوئے تو گرو صاحب نے سکھوں کو گھوڑسواری سیکھنے، بال بڑھانے اور کرپان(سکھوں کی مخصوص تلوار) رکھنے کی اجازت دی۔ تا کہ برہمنوں کے ظلم سے محفوظ رہ سکیں۔ کرپا ہندی کا لفظ مہربانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ظالم کو ظلم کرنےسے روکنا بھی تو ایک مہربانی ہے۔ اس لئے گرو صاحب نے اس تلوار کو کرپان کہا۔ اور ذات پات کی مصیبت سے آزاد رکھنے کےلئے۔ سکھوں کو خالص انسان کی نسبت سے خالصہ کہا۔ اسطرح جو گرو صاحب کی سر پرستی میں آ گئے۔ وہ اچھوت جیسے ذلّت آمیز نام سے محفوظ ہوگئے،
وامن میشرام کا کہنا ہے کہ وہ اکتالیس برس سے اچھوت آبادی کی آزادی کیلئے ان کو جگا رہے ہیں۔ اس مَرتبَہ ۲۰۱۹؁ کے الیکشن میں، کامیابی کی پوری امّید تھی کیونکہ مسلَمان بھی انکے اتّحاد مِیں شامِل تھے۔ مگر نریندر مودی کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین نے بے ایمانیوں کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ مسَلمانوں نے کوئی ۶۵ برس کانگریس کو ووٹ دیکر اپنی تباہی اپنے ہاتھوں کی۔ اس کو دیکھ کر مولیٰنا سیّد ابوالحسن عَلی ندوی (مَرحوم) نے اندرا گاندھی کی دعاء کرنے کی درخواست پر کہَا تھَا کہ مسَلمانوں کو اس قدر نقَصان پہنَچاکر تم اب بھی دعاء کی بات کرتی ہو؟ مجھے تو تمہارے لیئے بد دعاء کرنی چاہیئے۔
جسطرح یہودیوں سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی اسی طرح برہمن کا ڈی این اے بھی یہودیوں سے ملتا ہے لِہٰذا انسے بھی کسی خیر کی توقع ممکن نہیں ہے۔ بھارت مِیں سرکار کی سرپرستی میں ہر قسم کا جرم جنم لیتا ہے۔ آپ دیکھئے انکا میڈیا صرف سرکار کی چمچہ گیری کرتا ہے اور ہمہ وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بکواس کرتا رہتا ہے۔ ٹاک شو میں ہمیشہ وہ لوگ براجمان ہوتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ بڑی بد تمیزی سے پیش آتے ہیں۔ اس تین فیصد برہمنوں کے اقتدار والے بھارت سے دوستی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بھارت کی مظلوم عوام پاکستان سے بہت محبّت کرتی ہے۔ انتظار کیجیئے کہ ان کی حکومت قائم ہو تو ان سے دوستی اور بھائی چارہ کا رشتہ ہو سکے گا۔ اور خطّے میں انشااللہ امن اور آشتی کا دور دورہ ہو گا۔

سید حسین عباس

سید حَسین عبّاس مدنی تعلیم ۔ایم ۔اے۔ اسلامیات۔ الیکٹرانکس ٹیلیکام ،سابق ریڈیو آفیسر عرصہ پچیس سال سمندر نوردی میں گذارا، دنیا کے گرد تین چکر لگائے امام شامل چیچنیا کے مشہور مجاہد کی زندگی پر ایک کتاب روزنامہ ’امّت‘ کیلیئے ترجمہ کی جو سنہ ۲۰۰۰ اگست سے اکتوبر ۲۰۰۰ تک ۹۰ اقساط میں چھپی۔