1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ابرار حسین/
  4. چنے اورلوہےکے چنے

چنے اورلوہےکے چنے

2013 کے الیکشن کے نتیجے میں مسلم لیگ نون نے وفاق پنجاب میں حکومت بنائی اور بلوچستان میں اتحادی حکومت بنائی۔ سندھ اور پختون خواہ میں وفاق کی اپوزیشن کی جماعتوں کی حکومتیں بن گیی۔ پھر وقت کے ساتھ کامیابی سے آزادکشمیر اورگلگت بلتستان میں بھی اپنی حکومتیں بنا لیں۔

نون لیگ نے چونکہ سابقہ ادوار میں اقتدار دیکھا ہوا تھا اور ڈیلور اس طریقے سے نہی کیا تھا جس طرح سے کرنا چاہیے تھا اور الیکشن میں یہ دعواہ بھی کیا تھا کہ ہمارے پاس تجربہ کار ٹیم ہے تو وعدے کے مطابق سرعت سے ٹیم بنائی اور زنگ آلود کاغذی ڈھانچہ کی الماری کھول کر دیکھا تو امور مملکت چلانے والی کچھ فائلیں تو مٹی سے اٹی ہوئی تھیں جن کو کسی نے ہاتھ ہی لگانے کی جراءت نہی کی تھی جیسے بجلی بنانے والی فایل موٹرویز کی فائیل ریلوے کی فائیل انفسٹکچر کی فائیل کئی سالوں سے بند انڈسٹریوں کی فایلز عرصہ دراز سے ذبوحال معیشت کی فائیل بلوچستان بدامنی کی فائیل کراچی بدامنی کی فائیل اور پورے ملک میں دشتگردی کی وہ فائیل جس اندر ہرلفظ دشتگردی ہی تھا اسکے علاوہ نہ اس سے بجنے کا نہ نبٹنے نہ ہی ختم کرنے کا کوئی لفظ تھا اور آرٹیکل چھ کی فائیل جس کو اسکی پیدائیش کے بعد کسی نے ہاتھ بھی نہی لگایا تھا وغیرہ وغیرہ ان سب کو جھاڑ پونچھ کر ٹیموں کو دیا گیا کہ ان پر کام شروع کر دو۔ کچھ غلط فہمی کا شکار بھی رہی کہ ایک سول حکومت نے دوسری سول حکومت کو اقتدار جمہوری طریقے سے منتقل کیا ہے تو جمہورت مضبوط ہو گیی ہے۔ خیر یہ اب بچے بچے کو پتا ہے کہ نون لیگ کی حکومت انکو درست کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہے جس کی وجہ سے باقی سب کو لوہے کے چنے چبانے پڑھ رہیے ہیں۔ کچھ مہربانوں نے تواس حکومت کوروز اول سےتسلیم ہی نہی کیا اور اسکے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے مگر اس بار ڈیلوری پر کمیٹڈ تھی نون لیگ تو ان سب رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑتی رہی جس کی جھلکیاں آجکل سی پیک۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ۔ ملک بھر میں موٹرویز میٹروز اورنج لائین۔ ریلوے کی بہتری۔ 100 انڈکس کا انیس ہزار سے پچاس ہزار ہونا دشتگردی کا خاتمہ بلوچستان کا امن کراچی کا امن سکولوں اور ہسپتالوں میں تھوڑی سہی مگر بہتری نظر آ رہی ہیں۔ جنہوں نے اس حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا وہ شروع شروع میں اس کو سافٹ ٹارگٹ سمجھتے تھے اور اس چنے کو اسانی سے چبانے کے خواہشمند تھے جوں جوں یہ ڈیلور کرتے گیے ان کیلیے یہ لوہے کے چنے بنتے گیے اور چبانے کے خواہشمندوں کو سہولت کار بھی ملتے رہے۔ اب چھ ماہ رہ گیے ہیں اور چبانے والوں نے بھی لوہے کے دانت لگانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ 2013 میں صرف حکومت ختم کرنے کیلیے دھاندلی کا شور مچایا گیا ناکامی سے دوچار ہونا پڑا حکومت نہیں گری پھر 2016 میں نہی صف بندی اور نیے ہتھاروں سے لیس ہوکر پانامہ کا شور مچایا گیا اسکا اختتام بھی جب اقامہ پر ہوا تو حکومت نہی گری خیال اور منصوبہ یہی تھا کہ سابقہ ادوار کی طرح وزیراعظم سیٹ سے اترا تو پارٹی میں فاروڈ بلاک بنیں گے الغرض پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی حکومت ختم ہو جائے گی۔ یہ بھی نہی ہوا اس نامی کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ چنے اب لوہے کے چنے بن گیے ہیں اور یہ تو 2018 میں مذید سخت اور مقدار میں بھی زیادہ ہو جائیں گے لہذا اس زمیں کو جو یہ لوہے کے چنوں والی فصل دیتی ہے اور اس کے مالیوں ہی ختم کردیا جائے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ اب حکومت نہی شریف رجیم کا مکمل خاتمہ کرنے کی کوششوں کا آغازشدت سے ہو گیا ہے جس کیلے نیے اورپرانے تمام ہتھیار استعمال ہورہے ہیں مثال کے طور پر ایک غیرمعروف بقول روف کلاسرا بیس آدمی لیکر فیض آباد آیا اور للکار کر بیٹھ گیا بائیس دن تک میڈیا کا ہتھیار استعمال ہوا پھر عدالت کا استعمال ہوا اپریشن کا آڈر آیا کراچی کا تیس سالہ برباد امن بحال کرنے والی رینجر اور بلوچستان و وزیرستان کا امن بحال کرنے والی ایف سی کو فیض کے ایک پل پر شکست دلا کر وہ قیمت ادا کی گیی جس کا مداوا شاید پاکستان بہت عرصہ تک نہ کرسکے۔ اب پھر عدالت کا استعمال ہوا ہے باقرتجفی رپورٹ پبلک کرکے طاہرالقادری صاحب کو کنٹینرپر بٹھایا جا رہا ہے جس میں زرداری صاحب مصطفی کمال چوہدری برادران عمران خان وغیرہ کی کمک دی جائے گی۔ اس کے بعد مذہبی جماعتوں کو بھی سڑکوں پر لایا جائے گا اور شریف رجیم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی اور شریف حکومت سینٹ میں اکثریت لینے کی وجہ سے مزید مزاحمت نہیں کرے گی۔ اور اگر وہ بھی چار و نا چارمذاحمت پر اتر آئی تو پھر کیا خوفناک منظر بنے گا اس کے لیے عام پاکستانی مضطرب ہے۔ شریف رجیم کو ختم کرنے کیلیے اور یہ لوہے کے چنے چبانے کے خوہشمند بتانا پسند کریں گے کہ اس کی قیمت میرے ملک پاکستان کو کتنی چکانا پڑے گی؟