1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ابرار حسین/
  4. بغض و عناد

بغض و عناد

اللہ پاک صاحب اختیار لوگوں کو بغض و عناد کی بیماری سے دور رکھے۔ ورنہ گرد و پیش میں بڑی تبائی برپا ہو جاتی ہے جس سے وہ خود بھی محفوظ نہیں رہ سکتے مگر اسوقت تک تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے۔ جس کی کئی مثالیں پاکستانی قوم پچھلے دوسال میں دیکھ رہے ہیں 2013 تک کا دہشتگردوں کے زخموں سے چور معاشی بدحالی میں مشہور ترقیاتی طور پر کھنڈرات کا منظر پیش کرتا ہوا سرمایاکاروں کیلئے ڈراونا خواب سیاست کیلئے بنا ہوا پل صراط قرضوں کے پہاڑ تلے دبتا ہوا پاکستان 2017/2016 میں پاک فوج اور سنجیدہ سیاسی قائدین کی قربانیوں سے اندھیروں سے روشنی کے راستے پر گامزن ہوا ہی تھا کہ پاکستان دشمن قوتوں نے اپنے چمچوں یعنی بکاو میڈیا اور ایک مخصوص سیاسی گروپ کےذریعے جو عرصہ دراز سے انکا آلہ کار بنا ہوا تھا اس یکجہتی کو پاش پاش کر کے صاحب اختیار لوگوں اور برسراقتدار جماعت کے لوگوں میں بغض اورعناد کی چنگاری پر پیٹرول ڈال کراسکو کو شعلہ بنانے میں کامیاب ہوگئیں اور خود تماشائی بن گئیں اور اسوقت کا انتظار کرنے لگیں کہ کب یہ منتشر ہوکر دو زانوں ہمارے سامنے سجدہ ریز ہونگےاور آج ہم سجدہ ریز ہیں سب نے دیکھ لیا۔ ملک دشمنوں کو اندازہ تھا کہ اس آگ کےکھیل میں انہوں نے وہ نسخہ کیمیا آزمایا ہے جس کے نتائج بھی سو فیصد ہونگے اور کئی دہائوں تک اس بغض و عناد کا رنگ بھی نہیں اترے گا اور پاکستانی عوام اسلامی فلاحی معاشی قوت بننے سے بھی دور رہے گی۔ عوام آپس میں ہی دست و گریباں رہیں گے۔ وہ پاکستان کی معیشت جس کو 2017/16 میں عالمی مالیاتی ادارے مستقبل کی تیز ترین ترقی کرتی ہوئی معیشت قرار دیتے تھے۔ آج دیوالیہ کہہ رہے ہیں۔ اسوقت کے وزیراعظم کو عالمی سربراہان اپنے ساتھ بٹھانے میں فخر محسوس کرتے تھے آج کے وزیراعظم کو اپنا ڈرائیور سمجھتے ہیں۔ ۔ اسوقت چین کا صدر پاکستان کے دورے کرنا چاہتا تھا اور خود سے پچاس ارب ڈالر کی سرمایاکاری کا خواہشمند تھا گیم چیجنر منصوبہ سی پیک پاکستان میں لگا کرگیا۔ آج کا وزیراعظم منت سماجت کرکے چین کا دورہ کرنا چاہتا ہے۔ اسوقت کے وزیرخزانہ کو عالمی ادارے انکی صلاحیتوں کے اعتراف میں ایورڈز سے نواز رہے تھے آج کے وزیرخزانہ کو عالمی کیا اپنی پارٹی کے لوگ نالائق ترین گردانتے ہیں۔ اسوقت کے وزرا اور اداروں کے سربراہان ملک میں LNG، سولرسسٹم، میٹروز، موٹرویز لاتے تھے آجکل کے وزرا اور اداروں کے سربراہان کشکول لیکر بھیک مانگتے پھر رہے ہیں کہ ہم دیوالیہ ہو رہے ہیں ہمیں کچھ پیسے دے دو۔ ہم پانی کی مشکلات کا شکار ہیں ہمیں ڈیم کے لئے چندہ دے دو۔ عوام ایک روٹی کھا کر گذارہ کرے۔ اٹھارویں ترمیم ختم کرو صوبوں کے پاس پیسے زیادہ ہوجاتے ہیں اور وفاق کے پاس کم۔ جیسے صوبے پاکستان کا حصہ ہی نہیں۔ بغض و عناد کے مسلط کردہ لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ پانچ صوبے خودکفیل ہو جائنگے تو ضلع اسلام آباد خودبخود طاقتور ہوجائے گا۔ بغض نوازلیگ میں اور کم عقلی میں مبتلاء صاحب اختیار لوگوں نے ستر سال بعد ترقی کی جانب ڈورتے پاکستان کو 2008/7 کی سطح پر لاکھڑا کیا ہے۔ جس کرپشن کا شور مچا کر پاکستان کو ڈی ریل کیا تھا اسکا تمام تر وسائل استعمال کرنے کے بعد آجتک کوئی سراغ نہیں ملا۔ بغض عناد کی بنیاد پر بنائی گئی کہانیاں تھیں جنکا نہ سر تھا نہ پیر۔ ویسے تو پاکستان کو ہمیشہ ہی تجربہ گا بنایا گیا مگر تجربات کرنے والے کم ازکم کچھ وضع دار اور خیرخواہ ضرور ہوا کرتے تھے اس بار تو تمام حدیں پھلانگ کر ایسے لوگوں کو مسلط کیا گیا ہے جو نہ سمجھدار ہیں نہ وضع دار ہیں نہ وفادار ہیں نہ انکے مفادات قابل اعتبار ہیں۔ عوام کولگتا ہے یہ رلےملے اغیار ہیں۔ دو سال سے ایک تندرست (پاکستان) کو مریض ڈیکلئر کرکے نو ماہ سے سرجری جاری ہے نہ کوئی مرض ملا اور نہ مریض کو چھٹی ملی مگر سرجنز ہیں کہ اس بدقسمت مریض کو ہر طرف سے کٹ لگا لگا کر لہولہان کردیا ہے۔ خدا کیلئے اب چھوڑ دو تم ڈاکٹر بن کئے ہو تمہیں سندمل چکی ہے تنخواہ مل چکی ہے۔ نہیں ملی تو صرف ایک مرض جو اس بدقسمت مریض میں تھی نہیں۔ اور نہ ہی ہے۔ اسے تم جیسے سرجنوں نے مریض بنا دینا ہے۔ خدا کے لئے کھلواڑ بند کردو پاکستان مزید برداشت کے قابل نہیں ہے اسے جینے دو۔ میرے پاکستان کو جینے دو۔ پاکستان زندہ باد۔