1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ابرار حسین/
  4. سینٹ الیکشن ایم پی اے کیلیے لیپ کا سال

سینٹ الیکشن ایم پی اے کیلیے لیپ کا سال

بڑے بڑے دعووں اور خدشات کے باوجو سینٹ الیکشن ہوچکے ہیں اور انشاءاللہ چیرمین ڈپٹی چیرمین بھی بن جائیں گے۔ ایک کثیر تعداد میں میڈیا اینکرز سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کو گمراہ کرتے رہیے کہ سینٹ الیکشن نہیں ہونگے اب وہ بضد ہیں کہ جنرل الیکشن نہی ہونگے۔ خواہشات اور دیے گیے ٹاسک کو تجزیاتی رنگ دیکر عوام کو بےوقوف بنانے اور جمہوریت دشمنوں کو خوش کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اب ایک اور بات زبان زدعام ہے کہ سینٹ الیکشن میں خریدوفروخت ہوئی ہے جوکہ یقینا ہوئی ہے اور ہمیشہ ہوتی ہے۔ اس بار قدرے زیادہ ہوئی ہوگی۔

اسکی وجہ صاف واضح ہے سینٹ الیکشن کا اسوقت ہونا جب جنرل الیکشن کو صرف چند ماہ باقی ہیں تو یہ سینٹ کا سال ممبران صوبائی اسمبلی کیلیے لکی سال ثابت ہوا کیونکہ لیپ کا سال تو چار سال بعد آتا ہے مگر سینٹ کا لیپ سال پتہ نہی کتنے سال کے بعد آتا ہے۔ جنرل الیکشن سے چند ماہ پہلے ویسے بھی پنچھی نئے گھونسلوں کی تلاش میں تو ہوتے ہی ہیں مگر خالی ہاتھ۔ اس دفعہ وہ خالی ہاتھ نہی جا رہیے بلکہ آنے والے الیکشن کے اخراجات کا بندوبست بھی کرلیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہر ایم پی اے کی کروڑوں میں مٹھی گرم کی گئی۔ قانونی طور پر پابندی نہیں تھی۔ اخلاقی پابندی بابا رحمت ہی لگا سکتے ہیں جو چند دن پہلے وہ الیکشن ایکٹ کیس کی تشریح میں لگا چکے ہیں یا پھر خان صاحب لگا سکتے ہیں جس طرح وہ عوام کو بتاتے رہے ہیں کہ اوپر لیڈر کرپٹ نہ ہو تو نیچے والے کرپٹ ہو ہی نہیں سکتے۔ اب انکے بقول کےپی میں انکی جماعت کے 20/17 ایم پی اے بکے ہیں اور پارٹی پالیسی سے انحراف کیا ہے یہ کرپشن کے زمرہ تو نہیں آتا؟ نہیں بلکل نہیں آتا کیونکہ یہ بہشتی صوبے کے اور مثالی پارٹی کے ممبران ہیں انکا تو لیڈر صادق اور امین ہے ان پر یہ اخلاقیات لاگو ہی نہی ہوتیں۔ ڈیکلیرڈ صادق اور امین پر انگشت بازی کرنا سیاسی گناہ ہے اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ انگشت سیدھی قاضی القضاء کی طرف جائے گی جس کے نتایج نہال ہاشمی کی طرح اڈیالہ کی طرف ہو سکتے ہیں۔ بہرحال خان صاحب کیلیے مشورہ یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال سے آپ جو بارودی سرنگیں بچھارہے ہیں لگتا ہے انکی لوکیشن اب آپ کو بھی یاد نہیں رہی اور اب آپ کا راستہ بھی یہی رہ گیا ہے اب یہیں سے آپکی جماعت نے بھی گزرنا ہے اور آپکی جماعت کو جلدی بھی بہت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پوری جماعت ہی گھائل ہو جائے۔

نون لیگ سینٹ میں اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود چیرمین سینٹ لانے میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتی جتنی مستقبل میں کی جانے والی قانون سازی کیلیے ڈیل کرنے میں رکھتی ہے۔ اسکے لیے نون کے پاس دو آپشن ہیں اسوقت۔ پہلا یہ کہ وہ پیپلز پارٹی سے ڈیل کرے اور رضاربانی کو ہی سینٹ چیرمین بنائے۔ پیپلز پارٹی اسوقت اس ڈیل کا چیرمین کے علاوہ بھی معاوضہ لے گی مگر یہ آپشن موجودہ حالات میں مناسب ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھاو تاو کے باوجود جمہوریت میں سنجیدہ ہے اور قربانی دینے کی عادی ہے پہلے بھی بے مثال قربانیاں دے چکی ہے۔ زرداری صاحب کی موجودگی کے باوجود یہ دوسری جماعتوں کی نسبت زیادہ قابل بھروسہ ثابت ہوسکتی ہے۔

دوسرا آپشن یہ ہے کہ اپنا چیرمین لانے کیلیے سینٹ میں موجود دیگر گروہوں کو ساتھ ملا کر انکی بلیک میلنگ کا شکار ہوا جائے اس آپشن سےچیرمین تو نون کا بن جائے گا مگر قانون سازی ممکن نہی ہوسکتی۔ پہلے آپشن پر عمل میں بہت سی قوتیں رکاوٹ بن سکتی ہیں اور بنیں گی۔ کیونکہ جو بیانیہ عوام میں مقبول ہو چکا ہے اسکو کمزور رکھنے کا اور کوئی طریقہ ابھی باقی بچا ہی نہیں۔ شریف خاندان سارا بھی جیل چلا جائے تو اسکا بھی بیانیے کو فائدہ ہو گا کیونکہ یہ بیانیہ اب نواز شریف کا نہیں رہا یہ اب عوام کا اپنا بن چکا ہے۔ ڈیل جس سے بھی کرنی ہے وہ اصول کی بنیاد پر ہو۔ آجکل عوام میں پذیرائی حاصل کرنے والا واحد اصول یہی ہے کہ جمہوریت کا تسلسل ہو عزت و حرمت کے ساتھ ہو۔ جو لوگ عوامی احتساب سے مبرا ہیں انکو قانونی احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔ خدائی اختیارات کسی کے پاس نہ ہوں۔ تمام اداروں کو قانون میں دیے گیے اختیارات کی واضح تشریح کی جائے اور تجاوز پر سزا مقرر کی جائے۔ سینٹ الیکشن کا طریقہ کار صاف شفاف بنایا جائے۔

کاش مجھے سیاسی جماعتوں کی اکثریت سنجیدہ اورمفادات سے بالا نظر آتی۔ کاش مجھے ایوانوں میں آنے والے پارلیمنٹیرین دوراندیش۔ وسیع القلب۔ مدبر۔ نظر آتے تو میں یہاں لکھ دیتا۔ اس پورے آئین کو ری وزٹ کرو دوبارہ لکھو اور پاس کرو۔ مگر افسوس۔۔