1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ابرار حسین/
  4. نقطہ آغاز اور نقطہ انجام

نقطہ آغاز اور نقطہ انجام

25 جولائی 2018 کو پاکستان میں قومی الیکشن ہوئے جس میں پاکستان تحریک انصاف نے باقی سیاسی جماعتوں پر معمولی برتری حاصل کی اور مرکز اور تین صوبوں میں حکومت بنالی۔ یہ حکومت کیسے بنی؟ تحریک انصاف کو سیٹیں کیسے ملیں؟ دنیا بھر کے معتبر الیکشن مانیٹر کرنے والے ادارے اور معتبر زرائع ابلاغ کے نمائندے اس بات پر متفق ہیں کہ تحریک انصاف کو زبردستی اقتدار میں لایا گیا۔ اب تو وہ لوگ بھی صدق دل سے اقراری ہیں جو اسکو اقتدار میں لانے والوں کے سہولت کار بنے ہوئے تھے نہ صرف اقراری ہیں بلکہ اپنے اوپر لعنیں بھی ڈال رہے ہیں۔ خیر ان حاشیہ برداروں کی ہم بات ہی نہیں کرتے انکو جس طرف سے ہڈی ملے گی اسی طرف بھاگیں گے۔ ہم ان حساس اور معتبر اداروں کی بات کریں گے جن کی سلامتی سے پاکستان کی سلامتی جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان کے حساس اداروں نے ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنے آپ کو پوری دنیا میں تسلیم کرایا ہے سوویت یونین افغان جنگ ہو نیٹو افغان جنگ ہو یا دشتگردی کی اندرونی جنگ ہو ہمیشہ کامیابی حاصل کی ہے اور عوام کی سپورٹ ان اداروں سے غیرمشروط رہی ہے۔ مشرف کے مارشل لاء کے اختتام پر اور 2008 میں سیول حکومت کے آنے پر دنیامیں میڈیا اور سوشل میڈیا نے عوام میں اگائی کی ایک نئی لہر متعارف کرادی دی تھی جس کا بنیادی نقطہ تھا کہ کس ادارے کی ڈومین کیا ہے اور ادارے ڈومین سے باہر کتنے کام کرتے ہیں۔ اسی اگائی نے پاکستانی اداروں پر بھی انگلیاں اٹھانی شروع کیں اور سوشل میڈیا کی عوامی نشاندہی کو درخوراحتناع نہیں سمجھا گیا اسی اگائی کو مین میڈیا کے زریعے زور و شور سے سیول حکومت کے خلاف موڑ دیا گیا یہ صورتحال مزید بگڑ کر 2013 الیکشن میں سامنے آئی جب 2008 کی ناکام سیول حکومت کے باوجود عوام نے 2013 الیکشن میں سیول حکومت کے حق میں مزید بہتر فیصلہ دیا اور نوازشریف کی حکومت سابقہ حکومت سے مزید مضبوط بنی۔ مگر اداروں نے عوامی اگائی کو اہمیت نہیں دی اور اپنی طاقت اور صلاحیتوں کو مزید ضائع ہونے سے بچانے کیلئے اپنی پالیسی کو ری وزٹ نہیں کیا بلکہ مزید نفری جھونک کرشاید غیرارادی طور پر ایک ایسی جنگ کا آغاز کردیا جسکو جیت کر اور ہار کر دونوں صورتوں میں اپنا اور ملک کا نقصان لازم ہے۔ مشرف کو عدالت میں پیش کرنے کی بجائے ہسپتال میں داخل کرانا اور پھر ملک سے باہر بھیجنا۔ ریاست بچاو اور آزادی مارچ کی سپورٹ سے لیکر ڈان لیک پھر پانامہ لیک اور اقامہ پر اسکا انجام۔ نیب کا غیرمعمولی کردار مقدمات کی بھرمارمیڈیا کی یکطرفہ کوورج۔ ایک ہی سیاسی جماعت کی سیاسی ٹاگٹ کلنگ پھر غداری کے سرٹیفکیٹ پھر ختم نبوت فیض آباد دھرنا اور پھر اسکا اختتام۔ ملی مسلم لیگ کا قیام لبیک کا الیکشن لڑنا۔ لوٹوں کا بازار جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر آزاد امیدواروں کا گروپ سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ نگران حکومتوں کا قیام اور مطلوبہ نتائج کی امید اور آخر 25 جولائی 2018 کی پولنگ اور آر ٹی ایس سسٹم کا جام ہونا پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالنا اور تین دن تک نتائج کا عوام تک نہ پہنچنا اورپھر قسطوں میں مطلوبہ نتائج حاصل کر کہ ایک مخصوص مگر نالائق ترین جماعت کی حکومت بنادینا۔ یہ تھا کامیابی کا نقطہ آغاز۔ یہ سب واقعات میرے جیسے نالائق جاہل کند زہن عوام کے دلوں میں ازبر ہوچکے ہیں ان واقعات نے عوام کو مزید شعوردیا ہے۔ اس شعور کو مزید پختگی اسوقت حاصل ہوئی جب اس نالائق نامعقول حکومت نے ایک سال مکمل ہونے پر نہ پاکستان کی عوام کی آسودگی کا کوئی کام کیا بلکہ عوام کو اپنی پالیسیوں کی وجہ سےزندہ درگور کردیا۔ اور ساتھ ہی ان حساس اور معتبر اداروں کو بھی نقطہ انجام کی طرف دھکیلنا شروع کردیا ہے۔ انڈیا نے بالاکوٹ پر حملہ کیا تو قومی سلامتی کے اداروں نے دو دن میں دشمن کو ناکوں چنے چبواکر دشمن کے جہاز بھی تباہ کیئے اور دو پائلٹ بھی گرفتار کرکے عوام کا اعتماد حاصل کیا اور نالائق حکومت نے دوسرے دن ہی بغیر کسی ڈیل کے پائلٹ واپس کرکے اس اعتماد کا قتل کردیا۔ اس نالائق حکومت نے CPAC کو گارنٹی کرنے والے اداروں کو چائنہ کے سامنے رسوا کیا جب اس پروجکٹ میں کرپشن اور کک بیکس کا ڈنڈھورا پیٹا گیا اور چین کے اعتماد کو بری طرح کریش کردیاگیا جو پاکستان کی معیشت کو سہارا دے رہا تھا چاہے اپنے مفاد کیلئے ہی کیوں نہ ہو۔ ابھی دورہ امریکہ میں عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسامہ بن لادن کی معلومات ISI نے CIA کو دیں یہ بھی ایک سنگین الزام ہے کیونکہ نائن الیون کے بعد پاکستان کا اصولی موکف رہا ہے کہ اسامہ بن لادن سے نہ پاکستان کا تعلق تھا نہ اسکے بارے پاکستان کو کوئی علم ہے۔ یہ بیان کس مقصد کیلئے دیا گیا ہے؟ پاکستان کی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ یہ ادارے اپنی سابقہ پالیسی کو ری وزٹ کریں اور اپنی سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے صرف قومی سلامتی کے امور پر توجہ مرکوز رکھیں اندروں ملک ایک لاوہ عرصہ دراز سے تیار ہورہا تھا جسے آپ وقتا" فوقتا" مختلف طریقوں سےکنٹرول کرتے رہے ہیں مگر اس میں کمی واقع نہں ہوئی بلکہ آتش فشاں پھٹنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اب کوئی ڈیل کوئی NRO اس نفرت کو ختم نہیں کر سکتا۔ سیاستدانوں نے بھی بہت ٹھوکریں کھا لی ہیں اب وہ بھی جزوقتی حل کی طرف نہیں جائیں گے۔ یہ گرفتاریاں مقدمات میڈیا پر پابندیاں پرانے ٹوٹکے ہیں یہ صرف کسی مخصوص گروہ کیلئے تو شاید کچھ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں مگر عوام میں پائی جانے والی نفرت اور اضطراب میں جلتی پر تیل کا کام کرینگے۔ اجکل کے دور میں ترکی اور انڈونیشیا کی تاریخ پاکستان میں ہم کسی طور افورڈ نہیں کرسکتے پاکستان کی باشعور عوام اور سلامتی کے بہترین ادارے انڈونیشیا اور ترکی والے نقطہ انجام کی طرف نہ بڑھیں تو اچھا ہے۔ پاکستان اسوقت ہر لحاظ سے خطرات میں گھرا ہوا ہے حکومت بھی نالائق مسلط ہے معیشت تبائی کے دہانے پر ہے۔ سیاست اور جمہوریت مقید ہے اور اگر ادارے بھی عوامی نفرت اور کشمکش کا شکار ہوگئے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔