1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید ابرار حسین/
  4. جدید سیاسی ضرب المثل

جدید سیاسی ضرب المثل

1 -ہاں میں باغی ہوں !!

2-زرداری سب پربھاری!!

آج سے کچھ عرصہ پہلے تک میرا موٹا دماغ یہ دو باتیں سمجھنے سے قاصر تھا لیکن اب مجھے بھی سمجھ لگ گئی ہے کہ یہ معنی خیز باتیں تھیں۔ اول الذکر نے یہ نعرہ لگایا تو پانچ سال جیل گزار کر بہت سے پوشیدہ رازو کے ہمراز ہوگئے باہر آئے تو ملک بھر سے چار حلقے جیت کرمطلق العنان ڈکٹیٹر کو ملک بدری کی تحریک کے سرخیل ہو گئے۔ ایک بار پھرہان میں باغی ہوں کا نعرہ لگایا تو نیے اھرتے ہوئے فتنہ کی کھوج میں مگن ہو گیے اور مشن ایمپوسیبل مکمل کر کے پھر نعرہ لگا دیا ہاں میں باغی ہوں اور اس فتن کا پردہ چاک کر کے اکلوتی ایم این اے کی سیٹ بھی گنوا بیٹھے اور میرے جیسے بہت سے لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ بابا سٹھیا گیا ہے مگر ہمارے موٹے دماغوں پر یہ عقدہ تین سال بعد کھلا باغی نے اپنے نقصان کے بدلے پاکستان کے لیے کا مال جمع کیا ہوا تھا جو بوقت ضرورت پاکستان کو لوٹا رہا ہے۔ الللہ پاک عمردراز عطا فرمائے جنوبی پنجاب کی جمہوری سرزمین سے نوابزادہ نصراللہ صاحب کے بعد بھی جمہوریت کا سہارہ موجود ہے۔

اب تھوڑا سا ذکر ہو جائے ایک زرداری سب پر بھاری یہ نعرہ کسی مردم شناس جیالے نے جزباتی طور پرتعارف کرایا ہو گا مگر ہے صد فیصد درست۔ آصف علی زرداری نے کمال مہارت سے تمام راستے بنائے اوراپنے سیاسی دشمنوں کو بھی مفاہمت کی شیرینی سے ٹارگٹ سے دور رکھا اور اقتدار کے پانچ سال پورے کرلیے البتہ عوام کو ٹارگٹ سے دور رکھنے سے ناکام رہے جوکہ سبھی ناکام ہو جاتے ہیں۔ الیکشن 2013 میں عوام کی نبض کو دیکھتے ہوئے لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کا بہانہ کر کے سندھ کی حد تک قناعت کرلی اور بلاول کی سیاسی تیاری شروع کردی جس کے لیے کبھی کبھی ایک آدھ پٹاخہ چھوڑتے رہے جیسے ( تم نے ریٹائیر ہوجانا ہے ) ہم کسی کے گھر پر حملے کو سپورٹ نہیں کریں گے مگر اپوزیشن متحد ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان پٹاخوں سے پیغام پہنچ جاتا تھا اور جن کے لیے ہوتا تھا وہ اسے سچ سمجھ کر تسلیم بھی کرتے رہے ریٹائیر ہونے والے ریٹائیر ہو گئے رائیونڈمارچ والے گھر تک تو نہیں گئے مگر اپوزیشن متحد ہونے کے اشارے نے انہیں اتنا آگے دھکیل دیا کہ پیچھے مڑکر دیکھا تو زرداری کا سہارہ دور دور تک کہیں نظر نہی آیا اور نہ ہی وہ متحدہ اپوزیشن کہیں نظر آئی۔ زرداری نے اس بھیڑیے کو چار سال میں شکار دکھا دکھا کر جنگل شہر میں لایا جو پیپلز پارٹی کی سیاسی سلطنت کو کھا رہا تھا اب زرداری کو یقین ہو گیا ہے کہ شہر میں بھیڑیے کا بچنا ناممکن ہے اور اس کا خاتمہ ہو گیا تو کھوئی ہوئی سلطنت تلاش کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ زرداری صاحب اب اس جال میں پھنسے پر آخری وار دوسروں سے کرانے کے لیے اس کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر اس مرنے کے لیے وہی نسخہ کیماہ مفاہمت آزما رہے ہیں۔ زرداری صاحب اپنے کھیل میں سوفیصد ابھی تک کامیاب ہے اب آخری وار نوازشریف سے کرانا چاہتے ہیں اور نوازشریف یہ وار اسی صورت میں کر سکتا ہے کہ وہ کسی صورت استعفیٰ نہ دے اگر استعفیٰ نہ دیا تو زبردستی نکالنے کی کوشش اس وقت ان حالات میں ممکن نظر نہی آتی اور زبردستی کا وقت آیا تو زرداری صاحب نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونگے کیونکہ ان کا تیر ٹھیک نشانے پر لگے گا اور وہ اپنی سیاسی سلطنت کی واپسی میں بڑی رکاوٹ کو سیاسی موت دینے میں سوفیصد کامیاب ہو جائیں گے اور ان کی سلطنت کے جو کارندے بھیڑیا 2013 سے اب تک زیرنگیں کر چکا تھا وہ اہل و اعیال کے ساتھ زرداری صاحب کے قدموں میں سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ آخری پیش منظر کچھ ایسا ہی بنتا دکھائی دے رہا ہے کھیل سارہ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے کیونکہ زرداری کے آنے سے دوسری طرف سراج الحق اور خان صاحب ہی رہ جائیں گے باقی اپوزیشن تو پہلے ہی نوازشریف کےساتھ کھڑی ہے اب دیکھتے ہیں نواز شریف اس کھیل کو کتنا دلیری سے کھیلتے ہیں۔