1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. سید محمد زاہد/
  4. کاہے کو بیاہی بدیس

کاہے کو بیاہی بدیس

میں نے اسے پروپوز کیا تو وہ یوں سمٹ گئی جیسے چھوئی موئی کملا گئی ہو۔

تیز طرار زہرہ پہلی بار اپنی چوکڑی بھولی تھی۔ میں نے اسے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔

اندھیری رات کی کالی چادر اوڑھے پیار کا یہ پہلا اظہار تھا۔ وہ الگ ہوئی تو پہلا جملہ تھا۔

"مجھے اماوس کا آسمان بہت پسند ہے"۔

"اماوس ہی کیوں؟"

"یہ اندھیرا راز محبت کی پردہ داری کرتا ہے، جذبات کے لیے حجاب بن جاتا ہے"۔

"کالی ٹھنڈی اماوس کی رات میں آسمان کا دامن ستاروں سے بھرا ہوتا ہے"۔

" ستارے عورت کے جذبات کی طرح جگ مگ جگ مگ کرتے ہیں"۔

اس نے شرم سے منہ میرے سینے میں چھپا لیا۔

"تمہیں ستارے بہت پسند ہیں۔ ٹوٹتے ستارے! "

"یہی ٹوٹتے ستارے تو پیار بھرے دلوں میں امید کی کرن بھڑکا کر انہیں مدہوش کر دیتے ہیں"۔

"میں تمہارے لیے ستارے توڑ کر تو نہیں لا سکتا لیکن ستاروں کا ہم نشین بنا سکتا ہوں"۔

***

ہماری شادی میں تمام روایتی رسمیں ادا کی گئیں۔ نکاح نامے کو غور سے پڑھا، وہ تمام شرائط بھی جن پر لوگ لائن لگا دیتے ہیں۔ ہم نے وعدہ کیا کہ ایک دوسرے کا ساتھ نبھائیں گے، ایک دوسرے کی عزت کریں گے چاہے ایک دوسرے سے علیحدہ بھی ہو جائیں۔ زہرہ جمال کا کہنا تھا کہ وہ صرف ایک بچہ پیدا کرے گی۔

"میں ماں باپ کی واحد اولاد ہوں۔ مجھے اکلوتا پن بہت پسند ہے۔ میرے دادا کہا کرتے تھے کہ یہ خدائی صفت ہے"۔

میں نے کچھ دیر سوچ کر حامی بھر لی تو بڑے پیار سے مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگی، "تین سال بعد اس بات پر دوبارہ غور کروں گی"۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ کوئی حق مہر ہوگا نہ جہیز۔ بری میں صرف روزمرہ کے استعمال کی چیزیں ہوں گی۔ کوئی زیور چڑھایا جائے گا، نہ عروسی کپڑے۔

شادی سے اگلے دن ہی اسے لے کر چل پڑا۔ کچھ بھی ساتھ نہ لیا۔

"ہم ہنی مون پر جا رہے ہیں؟"

"جی؟"

"تو کچھ کپڑے سامان ساتھ رکھ لوں"۔

"سب وہیں سے ملے گا"۔

***

جب ہم سفری کاغذات اور انشورنس سرٹیفکیٹ سائن کر رہے تھے تو زہرہ جمال کو اندازہ ہوگیا کہ کچھ انوکھا ہونے جا رہا تھا۔

وارث کے خانے میں میں نے اس کی ماں کا نام لکھا تو میری طرف دیکھنے لگی۔

"یہ کیا؟"

"تم اس کی بیٹی ہو اور میں بیٹا۔

تمہاری ماں نے اس دن سہانے شامیانے کے نیچے، دوست احباب اور رشتہ داروں کی موجودگی میں، تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیتے وقت کیا کہا تھا؟"

"کیا کہا تھا؟" وہ انجم فروز آنکھیں جھپاکتے ہوئے بولی۔

میں خاموش ہوگیا۔

اس کی ماں کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ مجھے ایسا پیار دنیا جہاں میں کہیں نہیں مل سکتا تھا جو اس دن ماں کے لہجے موجود تھا۔

"میرے آنگن میں آج چاند اترا ہے۔ ایک انمول رتن چمکا ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔ اس دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ کنیا دھن ہے۔ لوگ بیٹے کی پیدائش پر جشن مناتے ہیں لیکن جس کی ایسی بیٹی ہو کہ تم جیسا جوان اس سے آن ملے، اسے بیٹے کی کیا کمی ہے۔ میرے لاڈلے! زہرہ جمال تجھے بہت پیار کرتی ہے سو میں اسے تمہارے مضبوط ہاتھوں کے حوالے کرتی ہوں"۔

لانچنگ پیڈ پر گاڑی رکی تو سپیس شپ کو دیکھ کر پوچھنے لگی، "کیا ہم خلا نوردی کے لیے جا رہے ہیں؟"

"جی! "

"اوہ! مائی ڈارلنگ"۔

اس نے بازو میری گردن میں حمائل کر دیے۔

***

پیار کا وعدہ نبھانا تھا۔ سفر سے سوچ وصال کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ وہ سفر جس میں تنہائی میسر ہو صرف خلا کا سفر ہی ہے۔ اس انوکھے سفر پر جانے کا خوف بھی تھا لیکن ایک دوسرے کا سہارا ہمیں بہادر بنا رہا تھا۔ سپیس انجینئرز ہمیں ہدایات دے رہے تھے۔

"سب کچھ زمین سے بھی کنٹرول ہو سکتا ہے"۔

ہم نے پوچھا، "اگر زمینی رابطہ ٹوٹ جائے تو؟"

"تو بھی سپیس شپ سال ہا سال ایسے ہی چلتا رہے گا۔ آپ جو بھی ہدایات دیں گے یہ اس کے مطابق عمل کرے گا۔ جب آپ واپس آنا چاہیں تو اسے حکم دینا یہ خود بخود کسی سمندر میں گر جائے گا۔ آپ کا بیڈ ایک کشتی بن کر تیرتا ہوا آپ کو قریبی ساحل تک لے آئے گا"۔

زہرہ کو ستاروں سے پیار تھا۔ ہنی مون آسمان کی بلندیوں میں منانے کی خواہش اس کے دل کے کسی خفیہ خانے میں چھپی بیٹھی تھی جس کا اس نے اظہار نہیں کیا تھا لیکن اس کی ستاروں سے محبت مجھے یہ کہانی سنا رہی تھی۔ وہ ان میں اپنا آشیانہ بنانا چاہتی تھی۔

***

جدھر بھی نظر جاتی بے رنگ و رونق وسیع کائنات میں صرف ستارے ہی ستارے نظر آتے تھے، آسمان ارض کی رفعتوں میں ٹمٹماتے ستاروں سے کئی گنا زیادہ۔ دور جدید کے ہنگاموں میں ان لمحات کی واپسی ممکن نہیں جن میں تنہائی تھی، رومانیت تھی، جنوں تھا، جذبہ تھا، خواب تھے۔ اس دور میں تنہائی کے ایسے لمحات میسر نہیں آتے جن میں عشق کی وہ داستانیں وجود میں آسکیں جو پدمنی پہر میں لکھی گئی تھیں۔ کالی داس کی میگھ دت ہو یا خیام کی رباعی صرف بدن کی ہم آہنگی اور معشوق کی نغمگی کے خیال میں ہی لکھی جا سکتی ہے۔

چمکدار سفید سپیس شپ میں عیش و آرام سے بھرپور ایک سٹنگ روم تھا جس کی دیواریں شیشے سے بنی ہوئی تھیں۔ اس میں بیٹھ کر پوری کائنات کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔ اس کے ساتھ متصل ایک آرام دہ لیکن پرتعیش خواب گاہ بے نیاز تعریف تھی۔ اس کا ورائے تعریف ہونا ہی اسے ہنی مون کے لیے ایک مثالی اور انوکھی چیز بناتا تھا۔ اس خاموشی اور اندھیرے میں ایک انوکھی راگنی تھی، زیر قبا زہرہ جمال کا بدن ترنم بکھیرتا ہو جیسے۔

جواں دلوں میں جوش و جذبہ دھیرے دھیرے بڑھتا ہے۔ وقت اور مقام اس کو مہمیز کرتے ہیں۔ لذت اور لذت کی سوچ اسے بڑھاوا دیتی ہے۔ بدن اور بدن کے سر اسے اور بھی تیز کر دیتے ہیں۔ یہی مستی، شریر کا آسن اور رس بھاؤ ہے جو انسان کو اردگرد سے بیگانہ کر دیتا ہے۔

ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اندھیروں سے لڑتے ستارے ہمیں دیکھتے ہوئے آنکھیں نہیں جھپکتے تھے۔ وہ ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تک رہے تھے، لیکن روشنی کہیں نہیں تھی۔ سپیس شپ کس رفتار سے چل رہا تھا، چل بھی رہا تھا یا ساکن تھا؟ کسی حرکت کا کوئی احساس نہیں تھا۔ کوئی دباؤ نہیں تھا، کوئی کساوٹ، تناؤ نہیں تھا۔ ہواؤں سے ہلکا ہونا سنا تھا محسوس اب کر رہے تھے۔

سپیس شپ کس راستے پر چل پڑا ہمیں پتا ہی نہ چلا۔ شاید ہم نے خود ہی زمین سے رابطے کو توڑ دیا تھا یا ہم کسی ایسے چاند کے پاس پہنچ گئے تھے جس کا ہمارے پاس موجود نقشے میں کوئی ذکر نہیں تھا۔ باہر کیا حالات تھے کوئی پتا نہیں۔ کھٹ کھٹ ہو رہی تھی جیسے کوئی دستک دے رہا ہو۔

یک دم اوپر والا دروازہ کھلا اور وہ اندر آ گئے۔ عجیب و غریب مخلوق، سینے پر کمپیوٹر کی سکرین۔ ہم ڈر گئے۔ وہ کچھ بول رہے تھے۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ پھر انہوں نے اپنے کمپیوٹر کو کچھ حکم دیا تو آواز بدل گئی۔ اب وہ جو بھی بولتے ہمیں سمجھ آ رہی تھی۔

وہ جھک کر سلام کر رہے تھے۔

"ہم نسل انسانی پر تحقیق کر رہے ہیں۔ آپ کی مدد کی ضرورت ہے"۔

ہمارا خوف کم ہوگیا۔

میں نے زمین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو وہ مسکرانے لگے، "ہماری موجودگی میں یہ ممکن نہیں"۔

بہت سی باتیں ہوئیں، کئی دن تک۔ ان کا رویہ ایک جیسا ہی رہا، انتہائی مؤدبانہ۔

ہم نے زمین پر جانے کا کہا تو بھی اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ آئی۔ لیکن کہنے لگے، "معذرت خواہ ہیں۔ کیا آپ ہمارے ساتھ جانا پسند نہیں کریں گے؟"

"کہاں؟"

"دور بہت دور، سولہ نوری سال کے فاصلے پر ہمارا سیارہ ہے۔ جسے زمینی انسان گلیز 832 سی کا نام دیتا ہے۔ ہم یہ فاصلہ چند دنوں میں طے کر سکتے ہیں"۔

میں پریشان تھا، زہرہ ان سے پوچھنے لگی، "کیا ہم کبھی واپس آ سکیں گے؟"

"جی نہیں! انسانی نسل میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ وہاں آپ ہمارے مہمان ہوں گے۔ ہمارا سیارہ آپ کی زمین سے زیادہ خوبصورت اور پرامن ہے۔ آپ کو بہترین مواقع ملیں گے۔ آپ بھر پور زندگی جئیں گے"۔

میں افسردہ ہوگیا۔ تو زہرہ بولی۔

"بچپن کی نعمت آزادی ہے، جوانی کی عشق و محبت اور بڑھاپے میں عبادت و سکون، ہمیں سب مل رہا ہے۔ ویسے بھی اس جیون کا پھل یہ ہے کہ انسان نے زندگی میں کچھ انوکھا کرکے نہ دکھایا ہو تو کچھ نہ کچھ کیا ضرور ہو"۔

اس کی خواہش پوری ہو رہی تھی۔

"ہم ضرور جائیں گے لیکن آخری بار اپنی زمین کو دیکھنا چاہیں گے"۔

رابطہ بحال کر دیا گیا۔ ماں سامنے ہی تھی۔

"ماما آپ نے ہی کہا تھا، جاؤ! نئی دنیا میں اپنا آشیانہ بناؤ۔ ہم آپ کو نا امید نہیں کریں گے"۔

اس نے بازو میری گردن میں حمائل کر دیے۔

"ماما میں یہاں بہت خوش ہوں۔ ستاروں کی اس دنیا میں"۔

پھر ہم نے ایک بوسہ زمین کی طرف اچھال دیا۔

یہ ہماری آبائی زمین کے لیے تھا۔

آخری بوسہ۔۔