1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. بلا عنوان

بلا عنوان

انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے، اور یہ خصوصیت اکثریت میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ گو اثتثنائی لوگ بھی قابل قدر تعداد موجود ہے جو 'کم بول، پورا تول' کے اصول کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے آپ کو ایسے کئی کردار نظر آئیں گے جو پہلے بولیں گے اور بعد میں سوچیں گے کہ مجھے یہ بات کرنی بھی چاہئے تھی یا نہیں۔ کئی افراد تو بولنے کے بعد سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرتے، وہ صرف بولنے کی حد تک مشقت کرتے ہیں۔
اسی طرح جب ہم کسی فرد سے منصوب سراپا اپنے ذہن میں بسا لیتے ہیں، اسے بدلنا گو ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ فرض کریں آپ اپنے ہمسائے کے لئے اپنے ذہن میں یہ بات طے کر چکے ہیں کہ وہ کنجوس ہے، تو شاید آپ ساری زندگی یہی تصور لئے اس دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ بہت کم ایسا ہوا کہ ہم درحقیقت کسی تحقیق کے بعد کسی فرد کے تخیل کو جانچنے کے بعد ذہن نشین کریں۔
پچھلے ہفتے ایک فنکار کا انٹرویو نشر ہوا جو اپنے مزاحیہ جملوں، اداکاری کی وجہ سے تھیٹر کی دنیا میں ایک سپر سٹار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے فنکاروں کے بارے ہم میں سے اکثر یہی سوچتے ہیں کہ یہ اپنی اصل زندگی میں بھی ایسے ہی خوش باش ہوں گے۔ کئی لوگوں کے نزدیک وہ گناہ کی زندگی گزار رہے ہیں۔
40 منٹ کے اس انٹرویو میں اس فنکار کی زندگی کے وہ گوشے سامنے آئے جو شاید اگر ظاہر نہ ہونے تو ہم بھی ان کے بارے وہی رائے رکھتے جو اکثریت کی تھی۔ لیکن اُس انٹرویو نے میرا انکے بارے تخیل پلٹ کے رکھ دیا۔ وہ سراپا پاش پاش ہو گیا جو اس سے پیشتر تھا۔ اس 40 منٹ کے انٹرویو نے ثابت کیا کہ دراصل انسان وہ نہیں جو دکھتا ہے، انسان وہ ہے جو چھپا ہوا ہے۔
دوران انٹرویو ایسے کئی مراحل آئے جب میزبان اور مہمان کی آنکھیں چھلک پڑی۔ یہ ان جزبات کی عکاس تھی جو شاید اس سے پہلے ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ میں مسلسل اس کشمکش میں تھا کہ جسے دنیا ایک بھانڈ، میراثی، جگت باز اور شیطان کے القاب سے نوازتی ہے شاید وہ اللہ کریم کا چھپا ہوا ولی ہے، ایسا ولی جو دکھاوے کے لئے نیکی نہیں بلکہ اُخروی نجات کے لئے نیکی کرتا ہے۔
ان 40 منٹ کے بعد مجھے اپنا آپ بہت پست لگا۔ کہ ہم جو کوشش کرتے ہیں کہ ہم پارسا لگیں اور دنیا تعریفوں کے ڈونگرے برسائے، ہم سے وہ ہزار گُنا اچھا کہ جو دکھنے میں گناہ کے کنویں میں گرا ہوا، لیکن پارسائی اس کے انگ انگ میں پیوست۔
ہم نے مہنگے کپڑوں میں کردار کے فقیر، اور بوسیدہ کپڑوں میں کردار کے امیر دیکھے ہیں۔ مہنگے بنگلوں میں سستے بندے اور سستی جھونپڑی میں بیش کردار کے قیمتی موتی دیکھے۔
گزارش مگر یہ کہ وقتی اُبال اور حالات سے مغلوب ہو کر ہرگز ہرگز رائے قائم نہ کیجئے۔ حالات، بندوں، کردار، واقعات کو ٹھنڈے دماغ سے پرکھئے اور پھر ہی کسی نتیجے پہ پہنچئے یہ نہ ہو کہ جلد بازی آپ کے لئے شرمندگی کا باعث بنے۔

سید تنزیل اشفاق

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔