1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. ماسٹرمولوی اور سلطان

ماسٹرمولوی اور سلطان

(کڑوی باتیں)

زاہداکرام

کسی بھی مہذب معاشرے اور زندہ قوموں کے کچھ اصول قوائدوضوابط ہوتے ہیں،اس کے کافی سارے معمار ہوتے ہیں جو اس کی تعمیر کرتے ہیں،اگر اس معاشرے کے معمار ہی نحیف و بیمار ہونگے وہ کیا معاشرہ کے خدوخال بنائیں گے ،تاریخ لکھنے والے اس بات کے گواہ ہیں کہ جو معاشرہ بھی عروج کی بلندیوں کو پہنچا اس کے معمار اعلی پائے کے مخلص، محب وطن قسم کے لوگ تھے۔ بچے معاشرے کاآنے والا کل ہوتے ہیں،جن کے مستقبل سے ہمارے نئے پاکستان کی امیدیں وابستہ ہیں،۷۰ برس تو روتے پیٹتے گزر گیا ،ابھی اور ۲۰ سال اسی طرح گذریں گے،اگر یہ نسل تیار کرنے کی طرف توجہ دی گئی تو! کیونکہ ایک نسل تیار ہونے میں ۲۰/۲۵ سال لگتے ہیں اور اس نسل کو تیار کرنے والے اہم کردار معاشرے کا ماسٹر، مولوی اور سلطان (حاکم وقت) ہیں اور بھی افراد ہیں مگر ان کا کردار مرکزی ہے۔ آپ کوکبھی فرصت ملے تو چھوٹے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گذاریں اور ان سے سکول کی باتیں پوچھا کریں اور ان کے اساتذہ کے متعلق بھی بات کیا کریں ،آپ کو پتہ چلے گا کی بچوں کے ذہن میں ان کے پسندیدہ استاد/استانی/مولوی کی باتیں کس قدر پختہ ہیں، اور اس کے خلاف وہ آپ سے بھڑ جائیں گے، مجھے چھٹی کلاس کے ماسٹر امیرالدین کا صبح جلدی اٹھنے کا نسخہ ابھی تک ز یر استعمال ہے چہ جائکہ میں ۵۰ کرا س کر گیا ہوں (نسخہ پھر کبھی)،اسی طرح اور بھی اساتذہ کی بتائی ہوئی باتیں ابھی تک ذہن میں ہیں۔
کہنے کا مدعا یہ ہے کہ جوکردار معاشرے کے معمار ہیں جن کی خصوصی تربیت ،عزت اور احترام ضروری ہے مگر افسوس ان کرداروں میں دو کردار ’ماسٹر اور مولوی‘ ہمارے پاکستان کے پسے ہوئے طبقہ میں آتے ہیں جن کیلئے حکومت کی طرف سے کوئی خیر کی خبر نہیں، اگر کسی کو انجینرنگ ،میڈیکل یا دوسرے کسی اچھے شعبہ میں داخلہ نہیں ملتا تو اس میں اکثرکو مجبوراََ طوعاَ و کرھنََ ماسٹری کرنا پڑتی ہے روزگار کیلئے جس کو وہ سارے عرصہ خوش دلی سے ادا نہیں کرتا اور اس کوشش میں رہتا ہے کہ کوئی اور ڈھنگ کی جاب مل جائے ،لوگ بھی اسکو ’’ اوئے ماسٹر‘‘ کہ کر پکارتے ہیں،تنخواہ بھی گذارے لائیق، جس کیلئے وہ اکیڈمی یا گھر میں ٹیویشن پڑھانے کا سہارا لیتا ہے،رہی سہی عزت کاجنازہ ، اور تو اور قوم کے یہ معمار جنہیں کبھی پولیوکے قطرے پلانے یا انسداد ڈینگی مہم اور آجکل مردم شماری پر، دوسرے مختلف سکول سسٹم ، گلی گلی میں سکول کئی قسم کے طریقہ ہائے تعلیم،ہمارے ماہرین تعلیم اور وقت کے سلطانوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی کہ ہمارے ملک کو کس سسٹم کی ضرورت ہے،بس یہ دنیاوی علم بزنس کا درجہ اختیار کر چکا ہے، اور ستم یہ کہ مستقبل کے معماروں اور ان کی تجربہ گاہ کیلئے سب سے کم بجٹ،حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ عزت اور سب سے زیادہ بجٹ رکھا جاتا ہے، پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹک رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب بھر میں کل ۳ لاکھ ۳۶ ہزار اساتذہ جن میں سے ۴۶ ہزار اساتذہ میٹرک پاس ہیں،اور۲۷۶سکولو ں کی حالت خستہ حالی کے باعث ناقابل استعمال ہے۔

ہمارے زمانے میں معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان پڑھایا جاتا تھا، جس میں پاکستان میں چھپے معدنی خزانوں کا علم دیا جاتا تھا، اسلامیات پڑھائی جاتی تھی جس میں قران و اسلام کا علم دیا جاتا تھا، مگر اب دینی مدارس علیحدہ سے نئی نئی قسم کا فلسفہ پڑھا رہے ہیں حالانکہ یہ سب حکومت کا کام ہے اور سارا سسٹم حکومت کے زیر اثر ہونا چاہے،ایک ہی قسم کے سٹینڈرڈ سکول ایک ہی نظام تعلیم کوئی پرائیویٹ سکول نہ ہوں کوئی آکسفورڈ اور ایچیسنز سسٹم نہ ہو،اسی سے ملکی ضرورت کے تحت مختلف پیشوں کے پروفیشنلز تیار ہوکر نکلیں، اور تو اور طالبعلم اپنی پڑھائی کا ۴۰/۵۰ فیصد خرچہ خود دوران تعلیم کمائیں حکومت ان سے ۲ گھنٹے روزانہ کام لے جس سے حکومت اور والدین پر خرچے کا بوجھ کم ہو،ایک تو طالبعلموں کو کام کی عادت پڑے گی دوسر انکی میلان طبع کا پتہ چلے گا کہ مستقبل میں وہ کیا بہتر انداز میں کر سکتے ہیں ،اس کے علاوہ مختلف قسم کے نئے نئے پیشوں کو متعارف کروانے کی بھی ضرورت ہے صرف ڈاکٹرز انجینیر ہی نہیں رہ گئے دنیا میں۔ اگر محکمہ تعلیم کا سلطان کوئی ماہر تعلیم اور حب الوطن قسم کا جنونی ہو تو اس کو یہ سب سمجھ آئے ورنہ تو اس شور کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اور مولوی کا بیٹا تو مولوی ہی بنتاہے ۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے ایک مولوی بننے میں کتنی محنت اور وقت درکار ہے۔ ایک حافظ قرآن کو کتنا عرصہ اور محنت درکار ہوتاہے اور ایک حافظ کی کتنی قدرومنزلت اور درجہ ہے جو سرورکونیئن ﷺ نے ہمیں بتایا ہے۔ ایک عالم اورمولوی بننے میں کتنا وقت اور محنت درکار ہے اسکا کیا مقام اور درجہ ہے مگر افسوس !یہ مقدس کام جو انبیاء کا ہے نام نہاد اور گھٹے ہوئے بند ذہن والوں کے ھتے چڑھ گیا ہے،اسلام تو صرف اور صرف قرآن اور سنت ہے بس،یہ نہ تو وہابی ہے نہ بریلوی نہ یہ شیعہ ہے نہ سنی، اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم دین کے علم کیلئے مولوی پر منحصر ہیں، جو اس نے بتا دیا بس پتھر پر لکیر، نہ کبھی ہم نے قرآن و تفسیر پڑھنی نہ ہمارے پاس وقت توپھر ہم اس کے رحم و کرم پرکیوں نہ ہوں،اگر دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کے دائرہ اختیار میں لایا جائے اور اساتذہ/علماء کی پراپر ٹرینگ ہوتو میں نہیں سمجھتا کی یہ فرقہ بندی اور مختلف مسالک کی بھرمار ہو،اور یہی نہیں مساجد میں بھی امام اور خطیب کسی مستنعد مدرسہ کا فارغ التحصیل ہو نہ کہ مولوی کا بیٹا مولوی اور محلے کی روٹیاں اکھٹی کرنے والا،پاکستان میں اکثر ایسا ہی ہے،کہ معاشرے کے دو بڑے ستون جہنوں نے معاشرہ تخلیق کرنا ہے وہ پسے ہوئے طبقہ میں آتے ہیں اور اس سب کا قصور وار ریاست کا سلطان ہے کیونکہ وہ حاکم وقت ہوتا ہے یہ اس کے اختیار میں آتا ہے کہ وہ معاشرے اور قوم کی تعمیر میں کہاں تک مخلص ہے،لیکن صد افسوس کہ وقت کے سلطان کو ان سب سے کیا غرض وہ تو اپنی ہی دھن میں مگن وہ نہ تو مولوی نہ وہ ماسٹر اور نہ ہی کبھی اس نے اس طرف توجہ دی اس کو تو خود دنیا اوردین کا سرسری علم ہے بلکہ حالیہ سلطان کو تو ، اللہ، بھگوان اور ایشور میں فرق ہی نظر نہیں آتا ،،پہلے وقت کا سلطان امامت بھی خود کرواتا تھا عالم بھی ہوتا تھا معلم بھی ہوتا تھا اس کو پتہ ہوتا تھا کہ میری قوم کو کس طرف لے کر جانا ہے،اس کی ایک جنبش قلم اور دو بول قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اگر ہمار نظام تعلیم سکول و مدارس اور اساتذہ کا ایک مربوط سسٹم ہو اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ماسٹر،مولوی اور سلطان کی مضبوط مثلث ہو تو اسکو ایک مایہ ناز قوم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔