1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. تندرستی ہزار نعمت

تندرستی ہزار نعمت

اس تین لفظی کلمے سے کون واقف نہیں، سوائے ان کے جو صحت کے کسی مسئلے سے دوچار نہ ہوئے ہوں، اور اللہ نہ کرے کہ کوئی صحت کے مسائل سے دوچار ہو، وگرنا تو صحت کی بحالی کے لیے جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں وہ مریض جانتا ہے یا اس کااللہ، صحت و تندرستی اللہ غفورالرحیم نے دینی ہے مگر اس کے کچھ اسباب بنتے ہیں جیسے ہسپتال، ڈاکٹر، نرسسز، ہسپتال کا عملہ، محکمہ ہیلتھ اور اس کے افراد، ادویات بنانے والے ادارے فیکٹریاں، میڈیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، وغیرہ، جو سب آج بزنس کا درجہ اختیار کر چکے ہیں، جب اس طرح کے شعبہ جات بزنس کی شکل اختیار کرلیں تو پھر خیر کی امید بے کار ہے اور خاص کر صحت کے شعبہ میں، بہت پہلے ڈاکٹر اور حکیم خاک کی پڑیا سے بھی مریض کو چنگا بھلا کردیتے تھے مگر اب حالات یکسر مختلف ہیں، نہ وہ ڈاکٹر حکیم نہ خاک کی پڑیا۔ ۔
جب جب انسان نے قدرت سے اختلاف کیا مشکلات سے دوچار ہوا، آپ خود دیکھ لیں ہم نے قدرتی خوراک کو مصنوعی اور ملاوٹ زده خوراک سے بدلا بیماریوں نے جنم لیا اور ایسی ایسی بیماریاں وجود میں آئیں کہ جن کا علاج ممکن نہیں، اگر ہے تو بہت مہنگا جو غریب کی پہنچ سے دور ویسے تو عام نزلہ بخار بھی غریب کی دسترس سے باہر ہے، ڈاکٹر حضرات اس کے لئےبھی کئی قسم کے ٹیسٹ، ایکسرے اور مہنگی دوائیاں تجویز کر دیتے ہیں، کہ غریب مریض ڈاکٹر کے پا س جانے سے کتراتا ہے، اس وقت پاکستان کے بڑے مسائل میں ہیلتھ کا مسئلہ دوسرے بڑے مسائل میں سے ایک ہے جن میں ملیریا، تپ دق، جس میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے، ڈینگی وائرس، کینسر، جس میں بریسٹ کینسر عام ہے اور ۴۰ ہزار سے زیادہ خواتین ہر سال اس مرض سے دو چار ہیں، ہارٹ اٹیک آج کے دور کی عام بیماری ہو گئی ہے، جوآبادی کے تناسب کا ۸ فیصد تک پہنچ چکی ہے، ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ۲ کڑوڑ ۷۴ لاکھ ہو گئی ہے، ایک سٹڈی کے مطابق ۲۰۳۰ء تک آپ پاکستان کو پانچویں نمبر پر کھڑا پائیں گے، ہیپاٹائٹس کے مریضوں میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے، تقریباََ ۳۵۰۰۰۰ کے قریب ہر سال سن سٹروک کے مریض رجسٹر ہوتے ہیں، سانس (دمے) کے مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جس کی بڑی وجہ آلودگی، آکسیجن کی کمی جو جنگلات کی کمی کی وجہ سے ہے، موجودہ حکومت کی اس طرف توجہ خوش آئند ہے، ایک اور بڑی خطرناک بیماری جس میں مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے وہ ایڈز (HIV/AIDS) ہے، جس میں سب سے زیادہ تعداد یعنی تقریباََ پچاس ہزارسندھ میں ہے، ڈائریا سے تقریباَ ۳ لاکھ سے زائد بچے ہر سال لقمہ اجل بن جاتے ہیں، زچگی کے دوران زچہ بچہ کی زندگی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اس کا بھی کوئی مستقل حل ابھی تک نہیں نکالا جاسکا۔
ہماری بدقسمتی دیکھئے کی لاہور میں غریبوں کے ليے جو ہسپتال ہیں وہ نان مسلمز اور غیروں نے بنائے، گنگارام، میو، گلاب دیوی، لیڈی ولنگڈن، شیخ زائد وغیرہ جہاں کی حالت زار آپکے سامنے ہے، باقی جتنے بھی بنے پرائیویٹ بنے جو غریب کی دسترس سے باہر ہیں۔ میڈیکل کے شبعہ سے وابستہ تقریباََ سبھی افراد اس کو بزنس سمجھتے ہیں اس کو خدمت سمجھ کر سرانجام نہیں دیتے، ڈاکٹر صاحبان اگر گورنمنٹ ملازم ہیں تو وہ مریضوں کو اپنے پرائیویٹ کلینک میں بلاتا ہے اگر کوئی ڈاکٹر کسی مرض کے علاج میں طاق ہوجائے تو اس کی فیس ہی آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں، گنتی کے چندسرکاری ہسپتالوں میں صفائی اور مریضوں کو سرو کیا جانے والا کھانا، جس کا معیار انٹرنیشنل تو قطعاََ نہیں ہوتا، کم از کم گھریلو نوعیت کا تو ہونا چاہیے، اکثرقارئین کو تجربہ تو ہوا ہوگا، ہر مریض کو مرغی شوربہ بھرپور آئل میں پکا ہوا پورے نمک والا، چاہے مریض کو منع ہو۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز جہاں سے یہ ڈاکٹر بن کر نکلنے ہوتے ہیں ان کی فیسوں کا کیا ذکر؟ چیف جسٹس صاحب نے سو موٹو تو لیا ہے دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے، پاکستانی نرسسز کا ذکر کرنا اس لئے ضروری ہے، چونکہ ہسپتال میں یہی سٹاف جنہیں سسٹر یا سٹاف کہہ کر پکارا جاتا ہے مریض کی دیکھ بھال کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں ہسپتال کے باقی سٹاف کے ساتھ، اگر ان کی تربیت و ٹرینگ احسن طریقے سے ہوئی اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں تو مریض بیس فیصد ویسے ہی ٹھیک ہو جاتا ہے، لیکن میں یہ کہنے میں قطعی عار محسوس نہیں کروں گا کہ ہماری زیادہ تر پاکستانی نرسسز اس میں صفر ہیں برعکس فلپائین کی نرسسزکے، دیار غیر میں ان کی خدمت گذاری اور پروفیشلنزم دیکھنے میں آئی تھی، انڈین نرسسز بھی تھیں لیکن ان کا رویہ بھی پاکستانی نرسسز جیسا ہی تھا، مریض تو اس شعبہ سے وابستہ افراد کے رویوں سے ہی بہتر ہو جاتا ہے اگر اس کو خالص ادویات، مخلص ڈاکٹر اور خدمت گذار سٹاف مل جائے وگرنہ تو اللہ ہی مالک، اور اگر خدانخواستہ عطائی ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جائیں تو مریض مرض کے ساتھ ہی اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے، پاکستان میں عطائی ڈاکٹروں کی بھی بھرمار ہے چیف جسٹس صاحب کا سو موٹو دیکھیں کیا رنگ لاتا ہے، ابھی تک تو حالات ایسے ہی ہیں، ایک اور قباحت ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا بندہ خدائی خدمت گذار ہے یعنی اس کے پاس ہر نسخہ موجود ہوتا ہے جو کبھی اس نے استعمال کیا ہوتا ہے وہ دوسروں کے گوش گذار کرنا ضروی سمجھتا ہے۔ ہمارے ہاں ششماہی نہ سہی سالانہ میڈیکل چیک اپ کا کوئی رواج نہیں، ہم اس وقت تک ہسپتال کا رخ نہیں کرتے جب تک مرض آخری سٹیج تک نہیں پہنچ جاتا، ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک میڈیکل سہولتیں، ہسپتال اور ڈاکٹروں کی تعداد آبادی کے تناسب کے حساب سے نہ ہو، ہمارے ہاں تو اس کے برعکس ہے، پاکستان میں دوسرے شعبوں کی طرح شعبہ صحت کی ذمہ دار حکومت کے ساتھ ساتھ عوام بھی ہے، جو اپنے ہی ہم وطنوں کو ناقص، غیر معیاری، ملاوٹ زدہ خوراک کھلاتے ہیں اور حکومت اس لیے کہ اس کی ان بدعنوانیوں کی اصلاح کیلئے کو لائحہ عمل نہیں ہے اور نہ ہی ہسپتالوں کے انفراسٹکچر پر کوئی توجہ، حکومت کو کم از کم غذائی اشیا کے معیار پر تو کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔
اس وقت سائنسدانوں نے میڈیکل کے شعبہ میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ انسانی جین تک میں ردوبدل کرنے لگے ہیں اور امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں نئے پیدا ہوالے بچے بے شمار مورثی بیماریوں سے مبرا پیدا ہوں، اور اس کے علاوہ گوروں کی میڈیکل کے شعبہ میں کاوشیں دیدنی ہیں وگرنہ تو ہمارے ہاں حکیمی ٹوٹکے ہی رائج الوقت ہیں وہ بھی مردانہ کمزری والے جو اچھے بھلے مرد کو مختلف بیماریوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، کہتے ہیں احتیاط علاج سے بہتر ہے، خالص اور صاف ستھرا کھانا، ورزش، ہماری تندرستی کی ضامن ہو سکتی ہے جو ہم اس وقت تک نہیں کرتے جب تک ڈاکٹر نہ کہے۔