1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. پاکستانی مقروض کیوں؟

پاکستانی مقروض کیوں؟

بابا قرضہ کیا ہوتا ہے؟ یہ وہ سوالات تھے جو میری بیٹی نے سکول سے آکر کئے، میں سوچ میں پڑ گیا، اور اسے بتایا کہ جب کوئی بندہ کسی سے کوئی چیز یا رقم استعمال کیلئے ادھار لیتا ہے تو وہ قرضہ ہوتا ہے جسے مقررہ وقت پر لوٹانا ضروری ہوتا ہے، اس نے اگلا سوال داغ دیا، کیا ہم مقروض ہیں؟ میں نے کہا نہیں، تو اس نے کہا، نہیں بابا ہماری ٹیچر تو کہہ رہی تھی ہم سب مقروض ہیں، ہر پاکستانی بچہ، بوڑھا، جوان حتی کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی تقریباََ ۳۵۰۰۰ ۱روپے کے قرض میں جکڑا ہوا ہے، سوال یہ ہے، کیا یہ قرضہ پاکستانی عوام نے لیا کیا یہ قرض پاکستانیوں سے پوچھ کر لیا گیا؟ پاکستان کیلئے پہلا قرض کس نے لیا، بانی پاکستان قائداعظم نے تو نہیں لیا تھا، جہاں تک پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کا سوال ہے تو یہ بوجھ موجودہ حکومت کو ماضی کی حکومتوں کی وجہ سے ورثے میں ملا ہے، صدر ایوب کے دور حکومت آنے تک نئے معرض وجود میں آئے پاکستان پر تقریباً ۳۵۰ملین ڈالر قرض تھا جو کہ پاکستان کی ابتدائی تعمیر نو پر خرچ ہوا، صدر ایوب کے دور حکومت میں ۱۸۰ملین ڈالر قرض واپس کردیا گیا تھا، اور اس دور میں بے شمار ترقی بھی ہوئی ڈیمز بنے جن سے آج تک بجلی مہیا ہوتی ہے اور یہ وہ دور تھا جب پاکستان دوسرے ممالک کو بھی قرض دیتا تھا، پھر ذالفقار علی بھٹو کا دور حکومت آیا جس میں بیرونی قرضے تقریباً ۶۳۴۱ملین ڈالر تک جا پہنچے اور کوئی خاص بڑی ڈویلپمنٹ بھی نظر نہیں آتی سوائے ایٹم بم کی ابتدائی منصوبے کے، پھر جنرل ضیاء کا جنگی دور آتا ہے جس میں بے شمار فوجی امداد کے ہوتے ہوئے ملک تقریباً ۱۲۹۱۳ملین ڈالر کے قرضے میں ڈوب گیا، اس کے بعد بے نظیر اور نواز شریف کی ۱۰ سالہ جمہوربت آگئی اور ملک تقریباً ۷۹۵۰ ملین ڈالر کا مقروض ہو گیا اور صرف ایک موٹروے نظر آتی ہے۔ مشرف کا آٹھ سالہ دور حکومت شروع ہوتا ہے جس میں ملکی قرضوں میں ۵ ہزار ملین ڈالر کی ادائیگی ہوئی، اور پیپلز پارٹی زرداری دور حکومت شروع ہوتا ہے جس نے حد ہی کردی اور ملکی قرضے بڑھ کر تقریباً ۱۴۱۰۰ ملین ڈالر ہوگئے، یہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دور تھا جس میں کوئی ترقی نہ ہوئی، لیکن ٹہریے ملکی قرضوں کا سیاہ ترین دور ابھی باقی ہے جس میں قرضہ تقریباً ۲۸۰۰۰ ارب ڈالر ہوگیاہے، یہ کوئی حادثاتی نوعیت کا معاملہ نہیں بلکہ سالہا سال پرانی حکومتی شاہ خرچیوں کا خمیازہ ہے۔ پچھلی دہائی میں لیے گئے قرضوں نے ملکی معیشت کی کمرتوڑ دی ہے، اب حالات یہ ہیں کہ لیے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرض لیناپڑ رہا ہے، جو کوئی ملک اس مقروض اور دیوالیہ ملک کو دینے کو تیار نہیں، اس صورت میں کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان مزید قرض نہ لے اور یہیں بریک لگا دے اور قرض واپسی کی کوئی تدبیر کرے۔

پوری دنیا میں پھیلے ہوئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سودی جال جوکاسہ لیس حکومتوں کو پراجیکٹ بیچتے ہیں جو موٹر ویز، میٹرو اور ون بیلٹ ون روڈکی طرح خوشنما ہوتے ہیں، انہوں نے کبھی بھی ملکوں کوانسانی فلاح کے آئیڈیاز نہیں دیے یا ان کے لئے قرض نہیں دیا، ان کی سودی معیشت جو قرضوں کے گرد گھومتی ہیں اور حکومتوں کو اپنے سنہری جال میں جکڑتی ہیں، انہی مہنگے منصوبوں کی وجہ سے ہے، دیکھ لیجئے عوام بھوکی مر رہی ہے اورملک میں اورنج ٹرینیں اور جنگلا بسیں چل رہی ہیں جن پر حکومت کو اربوں روپے سبسڈری دینا پڑ رہی ہے۔ لیکن سابقہ حکومتوں نے اس طرف سوچا ہی نہیں، بس قرضہ لیکر ڈھنگ ٹپاؤ پالیسی اختیار کئے رکھی، قرض کی واپس ان کی ترجیحات ہی نہ تھیں۔ اگر لیا گیا قرضہ معاشرے کے افراد اور ان کی اصلاح کیلئے خرچ ہوتا تو اور بات تھی، لیکن یہاں تو یہ بات اس کے مصداق ہوئی بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اور ماں قرض لے کر ڈنر سیٹ خرید لے، اور تو اور بڑے بڑے بزنس مین، سیاستدان، بیوروکریٹس، کڑوروں کے قرضے لیکر معاف کروا کر سکون سے بیٹھے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، جسٹس صاحب نے اس ایشو کو اٹھایا تھا بعد میں خبر نہیں کہ یہ معاملہ کہاں تک پہنچا۔

مہنگائی اور قرض کا توکوئی توڑ حکومت یا عوام کے پاس نہیں اور نہ ہی یہ کم ہونے والی ہے، البتہ ایک کام ہو سکتا ہے کہ عوام اپنی عادات بدل لے اپنے خرچے کم کرے چادر کے مطابق پاؤں پھیلائے، سادگی اختیار کرے اور بچت کرے یہ ملک اورقوم کے کام آئے گی، ملک کی انڈسٹری چلے گی زرمبادلہ بڑھے گا ملک خودکفیل ہوگا قرضے نہیں لینے پڑیں گے مہنگائی کم ہوگی، ملکی مصنوعات کا استعمال کریں تاکہ درآمدات میں کمی ہو، جواس سال ۶۰ ارب ڈالر تک پہنچ چکیں ہیں، جبکہ برآمدات صرف ۲۴ ارب ڈالر کی، ہم اپنے ملکی ذرائع ملکی مصنوعات کو بڑھائیں برآمدات زیادہ کریں تاکہ ڈالر نیچے آئے، وطن عزیز کو شرح نمو میں اضافہ کیلئے سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار کو زیادہ کرنا ہوگا جس سے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہونگے، اور ملکی معیشت پستی سے باہر نکل سکتی ہے۔ پاکستان کو بیرونی ایڈ سے ٹریڈ کی طرف گامزن ہونا پڑے گا، فصلوں کی پیداوار بڑھانے، ڈیری لایؤسٹاک اور فشریز میں مارکیٹنگ پر توجہ دینی ہوگی، حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم زرعی ملک ہیں یا انڈسٹریل تاکہ کوئی روڈ میپ ملے، کوئی پالیسی مرتب ہو اور قوم مستقل طور پر بھکاری نہ رہے۔ اس کے علاوہ میگا منی لانڈرنگ کو روکنا ہوگا اور لوٹا ہوا پیسہ واپس لانا ہوگا اور ان کرداروں کو عبرتناک سزائیں دینا ہونگی، یہ ایک ایسی دیمک ہے جو ملک کو اندر ہی اندر کھوکلا کررہی ہے۔

افراد کی طرح اقوام وممالک پر مشکل وقت آتے ہیں، اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لئے بہترین قاعدہ یہ ہے کہ شفافیت فرض شناسی اور جرأت سے کام لیا جائے، ایک اور کام کی بات غریب عوام کو کام کی عادت ڈالیں، ان کو کارآمد شہری بنائیں، مستقل دست نگر اور بھکاری نہیں، جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دوسرے اس طرح کے پروگرامز کے ذریعے بنایا جا رہا ہے ان کو روزگار پر لگائیں حکومت چھوٹی چھوٹی انڈسٹریاں خود لگائے، اور قریباََ ۶ کڑور تنومند، ہشاش بشاش نوجوانوں کو ہنر سکھائے اور نوکریاں دے جیسے چائینہ نے کیاتھا، زکوۃ کے نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے، اس کے بغیر چارہ نہیں اس نظام کی بدولت ریاست مدینہ میں، ایک وقت آیا تھا جب کوئی بھی غریب نہ تھا، خوشحالی تھی۔ قرض ایسا خطرناک مرض ہے جس سے چھٹکارا مشکل کام ہے، وزیراعظم عمران خان کو قوم کے لئے در در بھیک مانگنا پڑ رہی ہے، قوم کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بچت کریں سادگی اپنائیں اور یہ دعا کثرت سے کریں،

’’ اللہمہ اکفنی بحلاک عن حرامک و أغنی بفضلک عمن سواک،،۔