1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. سلاخوں کے پیچھے!

سلاخوں کے پیچھے!

اس وقت پورے ملک میں بے چینی اور بے یقینی کی فضاء ہے، قیاس آرائیاں اور خدشات عروج پر ہیں، افواہیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں، جس سے ملک کی سیاسی اور انتظامی اشرافیہ دونوں پریشان ہیں، اس وقت ملکی ادارے، جن میں عدلیہ، نیب اور فوج، ہفتہ صفائی منانے کے چکر میں ہے، آپریشن کلین اپ کے دوران احتسابی شکنجہ کن کے گلوں میں فٹ آتا ہے دیکھیے بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے، فی الحال تو ایک ستر سالہ بادشاہ قیدی نمبر۱۴۲۱، کھولی نمبر ون، کرپشن کیس 9/4 A&5 A اور 14 Cکے تحت سلاخوں کے پیچھے ہے، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، میاں صاحب کو اٹھارہ برس پہلے بھی جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی تب آتش جواں تھی، اس وقت جیل برداشت نہ ہو سکی تو ڈیل کے تحت جلاوطنی اختیار کر گئے تھے اب دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، ویسے حیلے بہانے تو شروع ہو گئے ہیں، پہلے تو ایک فوجی جرنیل کے ساتھ سینگ پھنسائے تھے تو بچت ہو گئی اس بار تو مقتدرہ (خلائی مخلوق) اور خاص کر پاکستان کی سلامتی کے در ہوگئے ہیں، جس کا خمیازہ انہیں بہرحال بھگتنا ہے۔ اللہ جانے ان کی یہ جیل یاترا کا عرصہ کتنا ہوتا ہے مگر ایک بات ان کو سمجھ آجانی چاہیے کہ محلات سے حوالات کا سفر کیسا رہا، کتنی محنت سے محلات تعمیر کروائے، جہاں تما م سہولتیں اور پرآشائش زندگی نرم گرم مخملیں بستر اور ٹھنڈے گرم کمرے، ۷۰ کروڑ کی خطیر رقم سے بیت الخلاء کی تزین آرائش، ایک فلایٹ سے جیل کی کال کوٹھری، اسی سفر کو میاں صاحب تھوڑا آگے بڑھا لیں اور سوچیں یہی کال کوٹھری قبر میں بدل گئی ہے، جہاں اپیل کا بھی حق نہ ہوگا توپھر کیا ہوگا، تو گذارش ہے میاں صاحب اپنے کردہ اور نا کردہ گناہوں سے توبہ اور اعتراف کرلیں سچ بولیں اور اپنی آخرت سنواریں، لوٹا ہوا مال غریب قوم کے حوالے کریں اور وقت گذاری کیلئے باپ بیٹی کتاب لکھنا شروع کردیں، (کرپشن کے طریقے یا کرپشن کیوں کی) ویسے اڈیالہ جیل میں سیاسی قیدیوں کی طرف سے کتابیں لکھنے کا رواج ہے، داماد تو اب نعتیں پڑھنے لگاہے اچھا کام ہے۔

پاکستان میں خاندانی سیاست کا دور دورہ ہے جن میں شریف اور بھٹو خاندان (حکمران خاندان)، اور طفیلئے عرصہ دراز سے حکمرانی کے مزے لے رہے ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنا اعتبار کھودیا ہے، قرض اتارو ملک سنوارو جیسی اسکیمیں، اوبامہ کی بیٹی مشعل سے غریب بچوں کی تعلیم کے نام پر ۷۰ کڑور کا آج تک پتہ نہیں چلا، اور پتہ نہیں کون کون سی اسکیمیں جو اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں، ملک کی ہر چیز (موٹرویز) وغیرہ گروی، جن جنگلا بسوں اور اورنج ٹرینوں کا ذکر ان پر بھاری قرضے، ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ یہ خر پسند قوم دو چار سال بعد اپنے لیڈر کی ہر بری بات بھول جاتے ہیں، اور پھر سے آوے ای آوے کے نعرے، لیکن اب شاید ایسا نہ ہو، اس لیے کہ جو استقبال نواز اشریف اور مریم کا ہوا، جیسا کہ انہیں خیال تھا کہ بہت بڑا استقبال ہوگا اور انہیں سلاخوں کے پیچھے رکھنے والے تھر تھر کاپنے لگے گے اور لوہے کی سلاخیں پگل جائیں گی اور وہ طیب اردوگان اور نیلسن منڈیلا کی طرح سب سے بڑے لیڈر بن جائیں گے اور مریم صاحبہ متوقع وزیراعظم ہونگی، نہیں ہوا، اب آگے کیا ہوتا ہے، آنے والا وقت بتائے گا۔

مگر احتساب کا شکنجہ تنگ ہوتا نظر آرہا ہے، جس کی ابتدا بہت پہلے ہو چکی تھی، اور منی لانڈرنگ کیس بہت وسیع پیمانے پر کھلتے نظر آرہے ہیں، جس میں بڑے بڑے مجرم آہنی ہاتھوں میں آنے والے ہیں، بلکہ کئی تو آئے بھی مگر صاف چھوٹ بھی گئے، پیپلز پارٹی جس نے بھٹو کو وینٹی لیٹر پر زندہ رکھا ہوا ہے مجال ہے اسے یا اسکے نعرے کومرنے دیا ہو، روٹی کپڑا اور مکان فقط ایک نعرہ ہی رہ گیا ہے، اندرون سندھ میں بھوک افلاس ننگا ناچ، ناچ رہی ہے لیکن آج بھی بھٹو دے نعرے، پتہ نہیں ان کے لئے انصاف کے کونسے تقاضے ہیں پاکستانی بس یہ خبریں پڑھ کی دل خوش کر لیتے ہیں کہ اب خزانہ بھر جائے گا اور مہنگائی کم ہوگی، بالکل اس طرح بڑے بڑے قرضے لیکر معاف کروانے والوں کے ساتھ ہونے جارہا، جنہوں نے ۱۹۷۱ء سے لیکر ۲۰۰۹ء تک قرضے لیے اور معاف کروائے جن کی مالیت ۲۵۶ بلین روپے ہے، میری دعا ہے کہ احتساب کا عمل بلا تفریق جاری ہو، جس نے بھی قومی دولت لوٹی اور ملک کو اقتصادی و معاشی تباہی کے کنارے پہنچایا اسے احتساب کے شکنجے میں لا کر نشان عبرت بنایا جائے۔

بقول سلیم صافی خیبر پختونخواہ اسمبلی میں چائے پانی کی ایک نشست کا خرچہ ایک لاکھ پچاس ہزار سے کم نہیں ہوتا اللہ جانے یہ کونسا چائے پانی ہے، جو لاکھوں میں چارج کیا جاتا ہے، جو غریب عوام کی جیبوں سے جاتا ہے، ظاہر ہے باقی سیاستدان بھی ایسا ہی ٹیکا لگاتے ہونگے، ایسے ہی گھپلے کئے ہونگے، ایک تختی نظر سے گذری جس میں ۲ عدد کلاس روم کا اضافہ کرنے میں 18.35 ملین لگے ایم پی اے پی پی ۱۲۴، جبکہ ایک غریب ملک کے حکمران ایک ایک پیسہ بچاتے ہیں تاکہ ان کا ملک ترقی کرسکے، لیکن یہ سب مجنوں کا خواب ہی، ان بے ضابطگیوں کا احتساب بھی ضروری وگرنہ تو جو نعمت شاہ ولی اللہ نے پشین گوئی کی تھی، آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ،

گرگ میراں سگ وزیراں موش رادیواں کند

ایں چنیں ارکان دولت ملک را و یران کند

(یعنی حکومت بگھیاڑوں کے ہاتھ اور وزارتیں کتوں کے پاس ہونگی)، اب اللہ سے دعاہے کہ الیکشن2018ء کا مرحلہ آسانی سے سر ہو اور کو ئی سیاسی عدم استحکام نہ ہو، پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور قائدین ایک دوسرے سے الجھتے نہ رہیں موجودہ دہشت گردی کی لہر پر قابو پا لیا جائے، اور پاکستان معاشی لحاظ سے بھی کمزور نہ ہو، اور اللہ اس ملک کو محب وطن ایماندار اور سچے حکمران عطا فرمائے، جو سابقہ ۷۰ برسوں کی کمی کو پورا نہ سہی تو صحیح ڈگر پر گامزن کردیں، اور ملک دشمن عناصر کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیں۔