1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. ریاست مدینہ تک کا سفر!

ریاست مدینہ تک کا سفر!

۱۹۴۷ء کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی اٹل قوت ارادی، دانش وارانہ صلاحیتوں، فہم و ادراک اور فولادی اعصاب کی مدد اور مسلسل انتھک محنت شاقہ سے مسلمانان پاک و ہند کے گلے سے صدیوں کی غلامی کا طوق اتارا اور پاکستان جیسی ریاست کی بنیاد رکھی۔ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا تھا، ۷۰ سالوں سے مختلف سائنسدانوں کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے، آمروں، جمہوریت پسند سیاستدانوں، بادشاہوں، فوجی ڈکٹیٹروں نے خوب خوب تجربات کئے، اور اس ریاست کو اس کے اصل ماخذ سے کوسوں دور کردیا، سب نے مل کر اپنے اپنے دور میں پاکستان کی جڑوں میں پورے خلوص اور ایمان کے ساتھ، کرپشن، لوٹ مار، بد اخلاقی وغیرہ کا ایسا زہریلا پانی دیا ہے، جو اس وقت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آرہا ہے، پاکستان میں بسنے والا تقریباََ ہرفرد معذرت کے ساتھ، جھوٹ، بے ایمانی، ہیراپھیری، کرپشن، لوٹ مار، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی وغیرہ جیسی علت میں ڈوبا ہوا ہے، ۷۰ کی دھائی تک مجھے یاد ہے لڑکپن کا زمانہ جب خلوص، بھائی چارے کی اک فضاء تھی ملاوٹ کا لوگ سوچ کر ہی خوف زدہ ہو جاتے تھے دودھ میں پانی ملانا تک عیب سمجھا جاتا تھا، محلے کا قصائی، سبزی فروش، دوکاندارسبھی محلے والوں کا خیال رکھتے تھے ناپ تول میں پورے تھے، ہر چیز میں برکت تھی، ۱یک کلو دودھ، جو سارے گھر کیلئے نا صرف کافی ہوتا تھا بلکہ اس سے تھوڑامکھن بھی نکالا جاتا تھا، ایک پاؤ گوشت آلوکا سالن بھی سب بچے سیرہو کر دووقت کھاتے تھے، رشوت خوری جرم تھی، رشوت خور کی گھر والیاں ہی اس کا حال چال پوچھ لیتی تھیں، لیکن جو بویا تھا وہی کاٹنا پڑ گیا، جس زہرسے آبیاری کرتے رہے وہ ہمارے سامنے ہے، گذشتہ 30/35 سالوں سے ایک ایسے ہجوم کی فصل تیار ہوئی ہے، جسکا سدھار ممکن نظر نہیں آتا، پاکستان کی قومی تباہی اور نقصان میں ہمارے اجتماعی رویے اور سائنسدانوں کا بڑا ہاتھ ہے، اس میں ۱۱ سالہ ضیائى ڈکٹیٹر شپ کا دور ۱۰ سالہ مشرف کا این آر او کا دور جس کے نتیجہ میں جنم لینے والا5 سالہ پی پی پی کا دور جمہوریت اور مسلم لیگ ن کا ۵ سالہ دوربادشاہت آیا جس نے سوائے لوٹ کھسوٹ، کرپشن، لا قانونیت، آبی قلت، بیرونی قرضوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں کے کچھ نہ دیا۔ کیا غضب کہ ۱۱۰۰ کینال پر وزیراعظم ہاوس، قیمتی گاڑیاں، ہیلی کاپٹر، سینکڑوں خدمت گذار، انواع واقسام کے خالص کھانے دودھ، وہ بھی غریب عوام کے پیسوں سے، جس کو ۲ وقت کا خالص کھانا بھی دستیاب نہیں ( موجوده حکومت نے کفایت شعاری اپناتے ہوئے ان سب چیزوں کو نیلامی پر لگا دیا ہے)، علاوہ ازین ہر ہر افسر کے شاہی انداز اور کئی کئی کینال کے بنگلے، کیا یہ اسلامی جمہوریہ کے خدوخال ہونے چاہیے تھے کیا اس لیے پاکستان وجود میں آیا تھا، بانی پاکستان نے تو ایسے ملک کی خواہش نہ کی تھی، لیکن اب امید ہو چلی ہے کہ حکومت وقت اس کو واقعتاََایسا ہی پاکستان بنائیں گے، جو اس وقت بانی پاکستان نے سوچا ہوگا۔

اس وقت ملک اس دوراہے پر کھڑا جہاں اگر ہر بری علت کو ریورس گیئر نہ لگا یا گیاتو خدانخواستہ اس کے وجود کے لالے پڑ سکتے ہیں، لیکن مالک المک اللہ رب العزت کا اپنا نظام ہے شاید اس کو اس کی بقاء منظور ہے، جس لیے اس وقت ایسے افراد عدلیہ، فوج اور حکومت میں ہیں جن پر لوگوں کا اعتماد ہے جو صادق اور امین ہے، محب الوطن اور قومی اصلاح کے جذبے سے سرشار ہیں، جو اس ریاست کو ریاست مدینہ کاماڈل بنانا چاہتے ہیں، جہاں غریب امیرسب کے لیے ایک نظام، جہاں حاکم وقت کی بھی پوچھ گچھ ہو سکتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت بری طرح بگڑے ہوئے پاکستان کو سدہار پائے گی، امید واثق ہے ایسا ہو کر رہے گا کیونکہ اب پاکستان کے لیے کی گئی دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہے ان دعاؤں کا جو میں نے مدینہ میں رہتے ہو ئے دیکھی اور سنی ان باریش بزرگوں سے جو ہمہ وقت روضہ رسول ؐپر حاضری دیتے تھے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نیا پاکستان ریاست مدینہ کا ماڈل نہ بنے، لیکن اس کے لیے ریاست مدینہ جیسے قوانین اور ان پر عمل ضروری ہے، ابوبکر صدیقؓ نے زکوۃ کو لازم کردیا تھا عمر فاروقؓ نے عدل و انصاف کیا، کیا موجودہ حکومت ایسا نظام لاگو کرپائے گی اس کا حکومت بنانے کے بعد کا ہوم ورک اور۱۰۰ دن کا پلان اس کا متحمل ہو پائے گا، وزیراعظم عمران خان صاحب رمضان میں جب مدینہ منورہ آئے تو میں نے میٹنگ میں علیم خان اور عمران خان صاحب سے اس موضوع پر سوالات کئے تھے جن کا خاطر خواہ جواب نہ ملا اور وہی باتیں ابھی تک سامنے آرہی ہیں پھر بھی حکومت کی سمت درست ہے تبدیلی کی قوی امید ہے، بشرطیکہ پوری پاکستانی قوم بھی ساتھ دے، چہ جائکہ ان میں کچھ بے یقینی بھی ہے کہ 35 سال سے جمع ہوتے اور ضرب پاتے مسائل کو یہ ٹیم کیونکر حل کرپائے گی، یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان سے لوگوں کی بہت زیادہ توقعات ہیں جن کو خان صاحب نے خود بھڑکایا ہے، اور اتنے اتنے بڑے کاموں کو چھیڑ لیا ہے جو ان حالات میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

لوگوں کی نئے پاکستان میں دلچسپی کی سمجھ توآرہی، لیکن عجلت وہ کیوں کیا کوئی انہونی ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں، کسی معجزے کے منتظر ہیں، یا کسی الہ دین کے چراغ یا پھر کن فیکون کے منتظر، مگر یہ عجلت پہلے کیونکر نہ دکھائی اگر پہلے دکھائی ہوتی تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی، اور نہ نیا پاکستان بنانے کی بات ہوتی جہاں ریاست مدینہ کا ماڈل سامنے ہوتا، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس پاکستان کو اس حال تک پہنچایا، اور ابھی سے ۱۰۰ دن کا کاونٹ ڈاؤن کاونٹر چلا دیا ہے، روز دن گنتے ہیں کہ تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ نئے پاکستان کیلئے حکومت کو اپنی موجودہ ٹیم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اس ٹیم میں اپوزیشن کے باصلاحیت افراد کو بھی شامل کیا جانا چاہیے، ان کو بھی کام پر لگایا جانا چاہیے، تاکہ وہ صرف اپوزیشن ہی نہ کریں، اپنے تجربہ سے پاکستان کو نیا بنانے میں حصہ ڈالیں، حکومت کو بھی بے یقینی کے سحر سے نکل کر مثبت کام کرنا ہونگے، الزامات، ڈنگ ٹپاؤ، سوموٹو، ریفرنس ریفرنس اور خودنمائی کے بھنور سے نکل کر نئے پاکستان کیلئے کا م کرنا ہو گا مواقع بار با نہیں ملتے، عوام بھی تبدیلی کی اس سٹیج میں اور ریاست مدینہ کے ماڈل بنانے میں حکومت کا ساتھ دیں، عوام کو اپنی عادات اور سوچ کو بدلنا ہوگا، نہ کہ ٹریفک قوانین پر عمل نہ کرنے کیلئے واویلا ناجائزقابضین کا شور مثلاََ۔