1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. سیاسی مسخرے اور اسمبلی تماشا (1)

سیاسی مسخرے اور اسمبلی تماشا (1)

پاکستان بنے ۷۱ برس بیت چکے اس دوران کئی حکومتیں آئیں، کئی دفعہ سیاسی تھیٹر لگا، کئی دفعہ اس تھیٹر پر بوٹوں والے بھی قابض ہوئے، مزیدار بات یہ ہوتی رہی کی فقط عوام کو ہی اس کھیل میں لتاڑا جاتا رہا، عوام شاید محظوظ بھی ہوتی رہی ہو ان سیاسی مسخروں کے وعدوں اور عہدو پیماں اور لطیفوں سے، اگر ہم تاریخ کو ۷۰ء کی دھائی میں لے جائیں اور آج تک کی فلم ریوائنڈ کرکے دیکھ لیں تو واضح ہو جائے گا پاکستانی عوام کے ساتھ ہوتا کیا رہا ہے، جیسے ایک مارشل لاء کے بعد ایک سیاسی فنکار نے بھوکی ننگی عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور، "روٹی، کپڑا اور مکان"، کا چٹکلا چھوڑا اور اسمبلی کا اسٹیج سجایا، قسم ہے آج تک اس عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان ملا ہو، الٹا ملک دو لخت ہوگیا، ایک دور میں تو ایک منچلے نے "کھپے"، کا نعرہ لگایا اور ملک کو اب تک کھپے کھپے (سوراخدار) کردیا، اتنے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ اور چائنہ کٹنگ ہوئی کہ الامان، ان کے بعد ایک اور صاحب جنہیں گاڈ فادر کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں جاتا تھا، سڑکیں، پل، ہوائی اڈے بانٹتا پھرتا تھا، اسکی تقاریر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ پلے سے بانٹ رہا ہے، یہ ۱۰۰ کڑور آپکے ہوئے آپ پر واری آپ پر صدقے، ووٹ کو عزت دو چاہے ووٹر رُل جائے، پیٹ پھاڑ کر دولت واپس لائیں گے اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام بدل دیں، مگر آج پھر اکھٹے، روک سکتے ہو تو روک لو سے لیکر چپ کا روزہ تک، ہم نے تو بجلی وافر بنا دی تھی لیکن عوام کو جہالت کے اندھیروں کے سوا کچھ نہ ملا الٹا عوام قرض کی دلدل میں دھنس گئی، اس مسخرے کی فیکٹری قومیالی تھی، جو آج تک اس فیکٹری کی دہائی دے کر نہ جانے کتنی اور فیکٹریاں، بنگلے اور جایدادیں بنا چکا ہے جس کی منی ٹریل ہی اس کو یاد نہیں، مٹی پاؤ گروپ بھی آجکل بہت مٹی اکھٹی کررہے ہیں۔
ان سیاستدانوں نے اپنے رویوں سے "جمہوریت" کو "بوریت" بنا دیا ہے، اور ان کی سیاسی تباہ کاریاں جاری ہیں، ووٹر بھی ان کو اس لیے ووٹ دیتے ہیں چونکہ یہ ان کو تھانے کچہری سے چھڑا لاتے ہیں اپنے تجربے کی وجہ سے۔ ۔ ۔ ماضی میں بھی اسمبلی کو تھیٹر بنا رکھا تھا پھبتیاں کسی جاتی ر ہیں ہیں، "ٹریکٹر ٹرالی نوں تے چپ کراو"، "مجھے کیوں نکالا سے ہنسنا تو کیا ہم کھل کر رو بھی نہیں سکتے"، "لوہے کے چنے"، "اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے"، یہ چھڑی والے ۳ سال کیلئے آتے ہیں ہم نے ساری عمر یہاں رہنا ہے، اور پھر دم دبا کر دبئی بھاگ جاتے ہیں، ایک اور صاحب نے اس سے ملتا جلتا بیان داغا تھا کہ، ہم تمہارے بچوں کے لیے زمین تنگ کر دیں گے اور پھر عدالت میں معافیاں مانگتے پائے گئے۔
۲۱۰۸ ء میں بھی اسمبلی کا اسٹیج سجا شاید صدی کا شاندار اسٹیج ہے، جس کو ۷۰ سالوں سے ستائے ہوئے پاکستانی عوام نے بڑے چاؤں سے سجایا، جو ایک کڑور نوکریوں، ۵۰ لاکھ گھروں اور ایک ارب دختوں کے سیاسی نعرے پر سجا، جس میں سارے فنکار نئے، کئی پرانے نئے لبادے میں سامنے آئے، موجودہ اسمبلی میں بھی ماضی کی طرح آئے روز نئے سے نیا لطیفہ سننے کو مل رہا ہے، اس دفعہ اسٹیج پر نئے فنکاروں کا واسطہ منجھے ہوئے فنکار سیاستدانوں سے پڑا ہے جو ان کو تگنی بلکہ چوگنی کا ناچ نچا رہے ہیں، نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے کے مصداق اقتدار چھن چکا مگر لچھن نہیں بدلے آپ نے ضروردیکھا ہوگا کہ اسمبلی کے باہر سابقہ سپیکر کوچوری کا گاؤن پہنے اسٹیج سجائے، مرچوں کا بھی سنا ہو گا، لیکن اگر یہ مرچیں سیاسی ہوں تو بہت لگتی ہیں اپوزیشن کو، جیسے آجکل حکومت والے، چور ڈاکو کہتے ہیں تو اپوزیشن والے اسمبلی چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔
یہ اسمبلی قانون دانوں کی نہیں بلکہ مسخروں کا اسٹیج ہے جہاں پاکستان کے ہر شہر سے چنے چنائے لوگ جمع ہوتے ہیں جنہوں نے اس کو اکھاڑہ بنا رکھا ہے، جو کسی طور قانون ساز تو لگتے نہیں، بلکہ بھانڈ مراسی زیادہ، جو نئے نئے لطیفے سناتے ہیں، ہمارے تو سیاستدان ہی نہیں سارہ معاشرہ ہی بھانڈہے، بیکار میں عوام پچھلے ۴۰ سالوں سے بہتری کی امیدلگائے، بیٹھے ہیں کہ اب ضرور ہماری سنی جائے گی، یہ عوام کا ہی حوصلہ ہے وگرنہ تو عوام کو عوا م کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے، جو ان سیاسی مسخروں کو چنتے ہیں، اب اسمبلی میں مخلص، ایماندار، محب وطن لوگ بھیجنا ہونگے اسمبلی کے تقدس کا خیال رکھیں، سیاسی تھیٹر نہ بنائیں، مسخرہ پن چھوڑ کر ملک کو سنوارنے والوں کا ساتھ دیں، وزیراعظم صاحب کو پہل کرنا ہوگی ایسے بیانات سے پرہیز کرنا ہوگی، جیسے وہ ابھی تک دے رہے ہیں، زیر نظر لائیں، یوٹرن پر بیان "وہ لیڈر لیڈر ہو ہی نہیں سکتا جو یوٹرن نہ لے"، مجھے تو میری بیگم نے بتایا، آپ ہی وزیر اعظم ہیں"،، "۵۰ مرغے"، " ۵ مرغیاں اور ایک مرغا"، خدارا کنٹینر سے اتر آئیں ہمیں پتہ ہے آپ خون پسینہ ایک کررہے ہیں، ملک کی خاطر آپ نے اپنی انا کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔ اور ان کو بھی روکنا ہو گا جو اس طرح کے بیانات دیتے ہیں جیسے"بلے کو دودھ کی رکھوالی دینا"، اور عوام کو نہ سہی ان کو ہی کوئی ٹارگٹ دے دیں، کل ایک مسخرے نے صحافیوں کو لتاڑا تو دوسرے دن صحافیوں نے پریس کانفرنس میں جو انکی عزت افزائی اپنے اپنے مائیک اٹھا کر کی، انکو سمجھ آجانی چاہیے کہ اس طرح کا مسخرہ پن نہیں چلے گا۔
اب وہ دور نہیں جب سیاستدان صادق امین محب الوطن، مخلص ہوتے تھے، سیاست رومانس ہوتی تھی ان کا اثاثہ ان کے نظریات ہوتے تھے، پچھلے چالیس سالوں میں آنے والی حکومتوں، سیاستدانوں اور سیاست کا بغور جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ نظریاتی سیاست کو کس طرح ختم کیا گیا اور کرپشن کے ذریعے کیسے تبدیلی لائی گئی، ایک چور کی سیکورٹی پر عوام کا اتنا پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے کیوں؟ خاقان عباسی اور مریم اورنگ زیب میڈیا پریس کانفرنس کررہے تھے صحافی نے ایک اشتہار کا ذکر کیاکہ مسلم لیگ، ’ن، نے چوری سے توبہ کر لی ہے تو عباسی صاحب نے کہا، "نہ میں نے ایسا اشتہار دیکھا نہ میں نے توبہ کی ہے چوری سے"، ایک اورسیاسی نعرہ جو بالکل نیااور مزیدار ہے جو انہوں نے اپنے ہی لیڈر کے حق میں لگایا، "گلی گلی میں کوڑا ہے نواز شریف چوڑا ہے"، یہ تھا تازہ سیاسی چٹکلا تھا۔ ۔ ۔ یہ سیاسی چٹکلے تو ایک طرف اندر سے یہ سیاسی مسخرے ایک ہی ہیں کل حامد میر کے بیٹے کی شادی کی ویڈیونظر سے گذری جس میں سب مخالفین ایک دوسرے سے جھپیاں چھپیاں ڈال رہے تھے، فیصل آباد کا مسخرہ اس سے جسے وہ جہلم کا ڈڈو (مینڈک) کہتا ہے۔ ۔ ۔ اور عوام۔ ۔ ۔ لڈیاں، ہم اکیلے ہی نہیں رہے اس میدان تمثیل میں امریکہ جیسا ملک جو خود کو اہل شعور سمجھتا ہے کی باگ ڈور بھی کچھ مسخروں کے ہاتھ آچکی ہے ڈونلڈ ٹرمپ سیاستدان کم مسخرہ زیادہ لگتا ہے۔ اب عوام کی معاشرتی ترقی کے لئے قیادت ان سیاسی مسخروں کے ہاتھوں سے چھین کر یا ان ہی لوگوں کو حقیقی سیاست کا درس دینا ہوگا، ہمیں لطیفوں اور پھبتیوں کا سورس بھی بند کرناہوگا، وگرنہ موسم برگریس دور نہیں۔