1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. قاضی ان ایکشن!

قاضی ان ایکشن!

سوموٹو، حکم نامے، برہمی، اداروں اور سیاستدانوں کی کھینچا تانی اس بات کی غمازی ہے کہ مملکت پاکستان کی سمت درست ہونے جارہی، یہ حقیقت ہے کہ جب تک کسی قوم کا سلطان، مولوی، معلم اور قاضی اپنی ڈیوٹی کماحقہ سرانجام نہیں دے گا، اس قوم کی صورت حال کا اللہ ہی حافظ، میرے ایک گذشتہ کالم ’’ماسٹر، مولوی اور سلطان ‘‘ میں وضاحت ملے گی۔ پاکستان کاقاضی القضاء عرف عام بابا رحمتے بنیادی انسانی حقوق، انصاف، قانون کی حکمرانی اورآئین کی بالا دستی کی تواناآواز محسوس ہورہے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے قاضی کی دخل اندازی اور فعالیت کو ہمارے نام نہاد عوام دشمن سیاست دان سیاسی اشرافیہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور عدالت کے دائرہ کار سے تجاوز اور اپنی حدود میں دخل اندازی تصور کرتے ہیں۔ جس کی وضاحت محترم قاضی القضاء نے اپنی ایک تقریر میں بڑی وضاحت کے ساتھ کردی کہ آئین کی شق 199 لاء آف انفورسمنٹ آف فنڈامینٹل رائیٹس، (Under Article 199 "Enforcement of fundamental rights")کے تحت عدالت کو یہ حق ہے کہ وہ سو موٹولے سکتی ہے اور عدلیہ سوموٹو لے رہی ہے حالات کو دیکھتے ہوئے سو موٹو لینا پڑتا ہے قاضی اپنے وقت کی قربانی دے رہے ہیں سرکار کے کرنے والے کام بھی عدالت کو کرنے پڑرہے ہیں، حکومت اپنے کام خود کرتی تو مداخلت کی ضرورت نہ پڑتی، ویسے قاضی صاحب ایک سو موٹو سیاستدانوں، ایم این ا ے ا ورایم پی ایز پر بھی لینا بنتا ہے کہ انہوں نے ۵ سال کیا کیا اگر قانون میں ہو تو؟ ویسے یہ لوگ تو مقننہ ہیں ان پر قانون لاگو نہیں ہوتا کوئی بھی اپنے مطلب کی ترمیم کسی وقت بھی لا سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ عدلیہ کے کانوں میں بھی یہ بات ڈال دی کہ انصاف وہ ہوتا ہے جو نظر آئے، معاشرے کو انصاف فراہم کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے، عدلیہ ریاست کا ستون ہے، عدلیہ نے ذمہ داری نہ دکھائی تو ریاست لڑکھڑا جائے گی، مسائل انصاف کی راہ میں آڑے نہیں آنا چاہیے، اپنے رویے ٹھیک کرنا ہونگے، رویے ٹھیک کرنے کا مطلب کام جلد نمٹانا ہوگا، ایمانداری کے ساتھ قوم کی خدمت کرنا ہوگی، اورحقائق پر فیصلے کرنا ہونگے، ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہوگا، انصاف میں تاخیر کے ذمہ دار جج صاحبان ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ساری قوم صرف اور صرف آئین کو اپنا راہنما مان لے اور آئین کی پاسداری کرے، یہی پاکستان کی سلامتی اور استحکام کا واحد راستہ ہے، سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان آئین کے کسٹوڈین ہیں ان کے اختیارات اور حفاظت کی چھتری بھی آئین ہے۔ ناانصافی قوموں کو تباہ کردیتی ہیں، اسی لیے تو نبی آخرالزمانؐ نے کہا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ ع بھی ہوتی تو میں یہی فیصلہ کرتا، اس لئے انصاف کا دامن مت چھوڑنا۔

قاضی صاحب کے سوموٹو ایکشن کے نتیجہ میں اسحاق ڈار کے گھر کے باہر پارک بحا ل ہوگیااور حمزہ شہباز کی روکی ہوئی سڑک کھل گئی، ناقص اور غیر معیاری دودھ کی سپلائی رکوادی گئی، پاکستان کا سب سے بڑے پانی کے مسئلے پر اداروں کی کھینچا تانی اور مذمت، ہسپتالوں اور سکولوں کی کارکردگی پر سو موٹو، پاکستانی عوام کے حق میں ہیں، میڈیکل کالجوں کی فیسوں، ہسپتالوں کی کارکرگی، کراچی میں کچرے کے ڈھیر، پی آئی اے کی تباہی کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانا، ریلوے کا خسارہ، قاضی صاحب کے ایکشن میں آنے کی نشاندہی ہے اور کسی ایسے روڈمیپ کی طرف اشارہ ہے جو آنے والے دنوں میں ایک تاریخ رقم کرے گا، لیکن ان کے بعد کیا ہوگا؟

قاضی اعجاز الحسن کے گھر پر فائرنگ کا ہونا اصل میں ان کو ڈرانے دھمکانے تک ہی محدود نہیں رہے گا اب ججوں کو سیسلین مافیا کی طرف سےکچھ اور بھی ملے گا اللہ نہ کرے، میرے ایک بہت قابل دوست حماد دانش اچھے بھلے تعلیم کے شعبہ سے وابستہ تھا، اللہ جا نے کیا سوجھی لاء پاس کیا اور کرائم وکیل بن گئے، پھر ایک دن کسی کرمنل نے راستے میں اللہ کو پیارا کردیا۔ اس لیے محترم قاضی صاحب سے التجا ہے کہ خدارہ صرف سو موٹوہی نہ لیں کیسوں کا فیصلہ سخت سزاووں سے دیں ورنہ یہ کرمنل لوگ آپ کی اور آپکے ججوں کی عزت نہیں کریں گے اور تذلیل کریں گے جیسا نہال ہاشمی نے دوبار کیا اگر اسکو کڑی سزا دے دی جاتی تو دوسروں کو کان ہو جاتے۔

قاض صاحب نے ٹھیک فرمایا وہ مقننہ نہیں وہ لاء کی ایمپلیمنٹ کرسکتے ہیں لاء بنا نہیں سکتے، اور مقننہ نے اب تک لاء اپ ڈیٹ نہیں کیا، لیکن وہ کوئی ایسا راستہ دے سکتے ہیں کہ کم ازکم مقننہ میں پڑھے لکھے جوقانون کی سوجھ بوجھ تورکھتے ہوں میٹرک پاس اور بی اے فیل تو نہ ہوں، وہ آئیں اور اپنے مقدس عہدوں کی پاسداری کریں، نہ کہ عوام کو بیوقوف اور قوم کا پیسہ لوٹنے تک محدود رہیں، ان کے سلیکشن کی کوئی ایسی سبیل ہوایسا طریقہ کار وضع ہو کہ مخلص ایماندر اور محنتی لوگ ہی اسمبلیوں اور سینٹ میں آئیں بکاؤ اور جاہلوں سے قوم کو چھٹکارا مل جائے۔ کالم کو قاضی القضاء کے اس بیان پر بند کرتا ہوں ’کہ ماورائے قانون کوئی اقدام نہیں کریں گے، میرے ججز کی عزت نہ کرنے والاکسی رعایت کا مستحق نہیں ہوگا، جس کا عملی مظاہرہ انہوں نے سعد رفیق پر ریلوے میں 60 ارب روپے کے خسارے کے از خودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران میں کیا اور موصوف کو کہا کہ میرے روسٹر م میں آئیں اور لوہے کے چنے بھی لیتے آئیں۔ آج جب میرے قارئین یہ کالم پڑھ رہے ہونگے قاضی صاحب نے سو موٹولینے بند کردیئے ہونگے۔