1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. مرحوم سے محرومیت تک!!

مرحوم سے محرومیت تک!!

کیا مرحوم عبدالستارایدھیؒ کی فاونڈیشن محروم رہے گی؟؟

زاہداکرام

مرحوم عبدالستار ایدھیؒ صاحب سر زمین پاکستان کے لیے ایک نعمت رب جلیل تھے جنہیں’’رحمت کا فرشتہ Angel of mercy‘‘ کے نام سے دنیا جانتی تھی اورجانتی ہے، عبدالستار ایدھی یکم جنوری، 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ آ پ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کے چھوٹے چھوٹے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں ان کو اسکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی ان میں سے ایک پیسا ان کے خرچ کر لیے اور ایک پیسا کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی ثابت ہوئی۔ کیا آج ایسی مائیں نہیں ہیں جو اپنے بچوں کو بچت اور دوسروں کی مدد کا درس دیں، لیکن افسوس آج مائیں انٹرنیٹ، فیس بک، واٹس اپ سے فارغ ہوں تو بات بنے، آج بچوں کی پہلی درسگاہ ہی پٹری سے اتری ہوئی ہے۔

1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔ 1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوا ئےاور مفت مدافعتی ادویہ فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے اسکول کھول لیا، اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔ آنے والوں سالوں میں ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس 600 سے زیادہ ایمبولینسیں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول کھولے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اس کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاؤنڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے چند نام افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔

ایدھی فاؤنڈیشن کا بجٹ ایک کروڑ کا تھا جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسا ھی نہیں خرچ کرتے۔ ان كى زندگى ميں ایدھی فاؤنڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن تهى۔ ایدھی صاحب كا خواب تها کہ پاکستان کے ہر 500 کلو میٹر پر ہسپتال تعمیر هو۔ وہ حکومت یا سابقہ مذہبی جماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے تهے کیونکہ وہ سمجھتے تهے کہ ان کی امداد مشروط ہوتی ہے۔ ضیاء الحق اور اطالوی حکومت کی امداد انہوں نے اسی خیال سے واپس کر دی تھی۔ عبدالستار ایدھیؒ کے وفات پانے کے تھوڑے ہی عرصے بعد ایدھی فاؤ نڈیشن کیلئے ملنے والے عطیات میں مجموعی طورپرکمی آئی ہے، جس کی مختلف وجوہات ہیں، بیرون ممالک سے ملنے والے چندے میں کمی کے بہت سارے اسباب ہیں، مشرق وسطیٰ میں ہونیو الی خانہ جنگی اورمعاشی بحران کی وجہ سے وہاں سے ملنے والے چندے میں خاطرخواہ کمی ہوئی ہے۔ امریکہ اوریورپ سے ملنے والے چندے میں کمی کااہم سبب وہاں مسلمانوں سے تعصب کابڑھتاہوارجحان ہے۔ وہاں کی پاکستانی کمیونٹی غیرمحفوظ ہوگئی ہے اورمعاشی طورپریہ بھی پہلے کی طرح مستحکم نہیں رہے، پاکستان سے ملنے والے عطیات میں کمی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب دوسرے فلاحی ادارے بھی سرگرم عمل ہیں، چندے کی رقم تومحدودہے ہی لیکن اب وہ ملک کے بجائے چاراداروں میں تقسیم ہورہی ہے۔ دوسرے ایدھی صاحب بھی نہ رہے جو کسی بھی جگہ کپڑا بچھا کر بیٹھ جاتے تھے اور لوگ لمحوں میں دولت کا ڈھیر لگا دیتے تھے، اب تو پاکستانی عوام پر ہے کہ وہ انسانیت کے محسن ادارے کو (ادارے تو بے شمار ہیں اور سخیوں کی تعداد بھی کم نہیں) کیسے چلاتے ہیں، اور مرحوم عبدالستار ایدھی صاحب کے محرومین کو کس طرح سہارا دیتے ہیں، اور انکی روح کے سکون کا باعث بنتے ہیں، ادارے کی وسعت اور کارہائے نمایاں کو نمایاں کرنے کی چنداں ضرورت نہیں چونکہ قاریئن جانتے ہیں اور واقف ہیں کہ کس طرح ایدھی فاونڈیشن انسانیت کی خدمت کیلئے سرکرداں ہے، اس لیے اللہ کے دیئے ہوئے میں سے کچھ حصہ ادارے کے محرومین کیلئے بھی وقف کیجئے۔