1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. زاہد اکرام/
  4. کشمیر جنت نظیر

کشمیر جنت نظیر

یہ اس دور کی بات ہے جب گریجویشن کے بعد نوکری کی تلاش میں صحافت بھی شروع کردی تھی، ایک دوست کی اخبار میں چھوٹے موٹے انٹرویوز اور لوگوں کے مسائل پر لکھنے کا کام سونپا گیا، یہ سن ۸۵/۸۶ ء کی بات ہے، جب ’’کشمیر بنے گاپاکستان، ، کا نعرہ بہت بکتا تھا، تقریباََ سارے پاکستان کی دیواریں اس نعرے سے رنگین تھیں، خاص طو پر سکولوں کی تو چاندی تھی، اس نعرے پر لوگوں کو لوٹا جاتا تھا، بچے بچے کی زبان پر کشمیر بنے گاپاکستان، ہم لے کے رہیں گے کشمیر، کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے وغیرہ، ہمیں تحریک کشمیر کے ایک سرکردہ رکن کا انٹریو کرنے کا کام سونپا گیا، نام میرے ذہن سے محو ہو گیاہے، خیر میں اپنے ایک دوست جس کو ہائیکنگ (کوہ پیمائی)کا شوق تھا تاکہ کمپنی بھی رہے، ساتھ لیا اور مظفر آباد پہنچے، تھوڑا آرام کرنے کے بعد صاحب کو ڈھونڈنے نکلے اس وقت موبائل کی سہولت نہ تھی ٹیلیفون ہی تھے، وہ بھی عام نہ تھے، خیرفون کرنے پر پتہ چلا وہ وادی لیپہ میں ملیں گے، اب اس طرف کا سفر کٹھن اور مشکل تھا، دوسرے جس روڈ سے سفر کرنا تھا اس کے اوپر پہاڑوں پر انڈین آرمی کی کمین گاہیں تھیں، ان کا جب دل کرتا فائر کھول دیتے ہیں اور آئے دن کئی بے گناہ شہری اس کی زد میں آکر ہلاک ہو جاتے ہیں، لوگوں نے کافی ڈرایا کہ نہ جائیں کل ہی انہوں نے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجہ میں آبادی کا ایک بندہ ہلاک ہوگیا تھا، خیر دل میں خوف تو آیا مگر دل مظبوط کرکے ہم روانہ ہو لئے، وادی لیپہ میں بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچے، تو پتہ چلا وہ تھوڑی دیر قبل وادی نیلم کی طرف کوچ کر گئے ہیں دوبارہ پھر واپس ہوئے وادی نیلم اترے ایک ڈھابے سے کھانا کھایا، ریسٹ ہاوس ( آزاد جموں کشمیر) کا پتہ پوچھا جس میں وہ صاحب ٹھرے تھے، پتہ چلا کہ وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر ہے جس پر ہائیکنگ کرتے ہوئے جانے کا پروگرام بنا، خیر گرتے پڑتے اوپر پہنچے راستے میں بارش بھی ہوگئی جس میں ہم بری طرح بھیگ چکے تھے مہینہ تو جولائی کا تھا مگر وہاں خاصی ٹھنڈ تھی، پہنچتے پہنچتے اندھیرا چھاگیا تھا، ریسٹ ہاوس میں کوئی کمرہ خالی نہ تھا مگر انہوں نے باہر لان میں ٹینٹ بھی لگار کھے تھے، ایک ٹینٹ میں ہمیں بھی جگہ مل گئی، ان صاحب سے اس وقت ملنا نامناسب تھا، تو ہم چینج کرکے اپنے ٹینٹ میں آگئے، بھیگنے کی وجہ سے رات میری طبیعت خراب ہوگئی، جو پیناڈول لینے سے صبح تک قدرے بہتر ہو ئی، ناشتے سے فارغ ہوکر ان صاحب کو ڈھونڈا، یہ ان کی مہربانی تھی جو انہوں نے ۱۰ منٹ کا ٹائم دیا، باہر لان میں چائے کا کپ ختم ہونے تک جو چند باتیں ہوئیں ان میں سے جو خاص بات انہوں نے کی وہ یہ تھی، ’’ کشمیر کیوں بنے گا پاکستان، پاکستان کے آیئن میں ہی کشمیر کا کوئی ذکر نہیں، تو ہم کیوں یہ کہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان، کشمیر بنے گا خودمختار، ، ، خیر مختصر سے انٹرویو کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ کشمیری علیحدگی پسند یا حریت مجاہدین اپنی آزادی کی جنگ پاکستان سے الحاق کیلئے نہیں لڑ رہے، وہ اپنی آزاد خودمختار ریاست کے قیام کے لئے برسرپیکار ہیں، وگرنہ تو وہ انڈیا کے ساتھ چاہے زبردستی الحاق میں تو ہیں۔ اس بات کی تائد اس وقت ہوئی جب میں روزگار کے سلسلہ میں سعودی عریبہ آیا تو کھانے کی پرابلم پیش آئی چونکہ مجھے کھانا بنانا نہیں آتا تھا لہذا آزاد کشمیر سے ایک گروپ جو میرے ساتھ والے فلیٹ میں رہتا تھا ان کے ساتھ ہانڈی والی (اکھٹا کھانا پکاناکھانا) کر لیا، تو اکثر ویک اینڈ پر ان کے کشمیری دوست آتے تھے تو میرا تعارف یہ کہہ کر کروایا جاتا تھا جی یہ ہمارے دوست زاہد صاحب پاکستان سے ہیں، میرے استفسار پر کہ آپ بھی تو پاکستان سے ہیں، کسیانے ہوکر جی جی ہم بھی کشمیر پاکستان سے ہی ہیں، شاید اسی لیے مولانا فضل الرحمان صاحب نے ۱۳ سال کشمیر کمیٹی کے چیئر مین رہنے کے باوجود ایک لفظ ان کے حق میں نہیں بولا اور نہ ہی ان کے حقوق کے لیے کسی فورم پر لڑے، بس ۱۳ سال حکومت کے خرچے پر پلتے رہے حالانکہ جماعت اسلامی نے کشمیریوں کے حقوق کی جنگ شروع دن سے لڑ ی ہے، اور ۵ فروری کو پاکستان میں کشمیر ڈے اور ریلیوں کی ابتداء بھی انہی کی مرہون منت ہے، جس دن پاکستانی حکومت اور عوام مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح ۲۷ اکتوبر کو’’سیاہ دن،، Black Day کے طور پر منایا جاتا ہے جس دن راجہ ہری سنگھ نے مسلم اکثریت کی ریاست کشمیر کو انڈیاکی جھولی میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور انڈیا نے اپنے فوجی اتارے اور جنت نظیر وادی پر قابض ہوگیا۔ اس دفعہ پاکستان ایمبیسی رياض میں بروز جمعرات ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۸ یوم سیاہ کشمیر رنگارنگ طریقے سے منایا گیا، جس میں شرکت کی دعوت ملی، مگر کچھ مصروفیت کے باعث شرکت نہ ہو سکی، جس کا افسوس رہے گا، لیکن ا س کی کوریج مل گئی تھی جس بنا پر میں نے ’’رنگا رنگ طریقے سے منایا گیا، ، لکھا جس کیلئے معذرت چاہوں گا۔

اب تک انڈیا کی بربریت کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ۱یک لاکھ سے زیادہ کشمیری ہلاک اور تقریباََ۷ لاکھ سے زیادہ زخمی اور اپاہج کیے جاچکے ہیں، بچیوں عورتوں کی عصمت دری کا سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے، ظلم بربریت کے یہ مظاہرے روز لوکل اور انٹرنیشنل ٹی وی چینلز پر دکھائے جاتے ہیں، جنہیں دیکھ کر عام آدمی کا دل پسیج جاتا ہے، نہیں فرق پڑتا تو عالمی ادارہ برائے حقوق انسانی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں، اس دفعہ موجودہ حکومت پاکستان نے کشمیریوں کے حقوق کی آواز اقوام متحدہ میں بھرپور طریقے سے اٹھائی، جس کا اثر تو شاید ہی دیکھنے کو ملے پہلے کی طرح، چونکہ یہ مسئلہ مسلمانوں کا ہے نہ کے ہندؤو کاآپ دیکھ لیں دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں کا قتل عام اور ظلم بربریت کا بازار گرم ہے عالمی فورم پر اس کی مذمت اور حل دیکھنے کو نہیں ملے گا، پاکستانی عوام کشمیریوں کی حق خودارادیت کیلئے ہمیشہ آواز اٹھاتی رہے گی اور ان کے شانہ بشانہ لڑتی بھی رہے گی، کشمیر آزاد ہوگا، اس کے بعد چاہے تو وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرلے، دونوں صورتوں میں کشمیر حکومت اور كشمیریوں کی وارفتگی پاکستان کے ساتھ ہوں گی، اس امید کے ساتھ کہ،

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی

جس کے ہر قطرے میں خورشید کئی جس کی ہر بوند میں اک صبح نئی

دور جس صبح درخشاں سے اندھیرا ہوگا رات کٹ جائے گی گل رنگ سویرا ہوگا

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو