1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. شکریہ یا شیخ

شکریہ یا شیخ

ایک دوست نے گلف جاتے وقت بتایا تھا کہ "شیخ (اہلِ عرب) جہاں بھی ملیں ان کا احترام کرنا اور ان سے ہاتھا پائی یا لڑائی جھگڑے سے گریز کرنا"۔ میں نے پوچھا " وہ کیوں؟ " تو کہنے لگے "جب میں نیا نیا دبئی گیا تو ایک دوست کے ہمراہ گاڑی میں جا رہا تھا کہ یکایک سامنے دو گاڑیاں ٹکرا گئیں۔ نشے میں دھت کسی اہلِ عرب نے اپنی گاڑی کسی خارجی میں ٹھوک دی۔ میں نے کہا بس اب ہوا پنگا لڑائی ہوگی گالم گلوچ ہوگی اور پولیس آجائے گی۔ اتنے میں خارجی اترا اور صدقِ دل سے شیخ صاحب کے آگے خاص چائینز انداز میں اداب بجا لایا ساتھ ہی ساتھ ٹوٹی پھوٹی عربی میں شکریہ ادا کیا کہ قبلہ معافی چاہتا ہو آپ کے آگے گاڑی چلا رہا تھا معلوم ہوتا تو بندہ اس گستاخی کا مرتکب نہ ہوتا۔ کچھ دیر میں پولیس آئی اور صرف خارجی کی گاڑی کی جانچ پڑتال کرکے چلتا کیا اور شیخ صاحب کی گاڑی کو پیچھے باندھ کر لے گئے"۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا "میاں جی یہ کیا ماجرا ہے؟ کہنے لگے "یہ حقیقت ہے کہ اگر آپ کو شیخوں کے دیس رہنا میں ہے تو سر تسلیم خم کرنا ہوگا۔ گاڑی تو آپ ایک مہینے میں پھر کما لو گے اور اگر شیخ صاحب ڈی پورٹ کردیں گے تو آپ ان کا کیا کر لیں گے۔ اسی میں عافیت ہے غلطی بھی ہے تو معذرت کرلیں اور معاملہ رفع دفع کریں۔ " کہنے لگے پورے گلف میں ایسا ہی ہے۔ تو یہ میرے لیے سود مند بات تھی۔
شیخ محمد بن زید النہیان کے دو یا چار روزہ نجی دورے اور نصف دن کے سرکاری دورے پہ کانا پھوسی اور چے مگو ئیاں کرنے والے سب جانتے ہیں کہ ہمیں اتنے پہ ہی شکر کرنا چاہئے کہ " وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے۔"
ہم لوگوں نے مسجد میں دس روپے بھی دینے ہوں تو دس بار سوچتے ہیں حالانکہ بحیثیت مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ دس گنا ہوکر واپس آئیں گے تب بھی دل میں خیال رہتا ہے کہ دس تو گئے نہ۔ تو ایسے میں بیٹھے بٹھائے تین ارب ڈالر کے بغیر سود قرضے، بلین ڈالرز کے تیل کے ساتھ ساتھ چالیس شعبوں میں سرمایہ کاری آگئی تو ڈھنڈھورا پیٹنا ضروری تھا کیا۔ ہم ایک آٹے کی بوری کے ساتھ دس دس تصویریں بنواتے اور اپنی خیرات کی تشہیر کرتے ہیں جو ایک پسماندہ معاشرے کی زندہ مثال ہے۔ لیکن شیخ اس بات کو ناپسند کرتے ہیں۔
پچھلی ایک دہائی میں پاکستان کی ابتر صورتحال دیکھ کر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ہمارے دشمن بھارت میں بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی اور ارادہ رکھتے ہیں۔ ایسے میں صرف دورہ کرنا ہی غنیمت تھا کہ سفارت کاری کا مثبت آغاز تو ہوا۔ لیکن ہم لوگ کرتے بھی کچھ نہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ میں دیکھتا ہوں کیسے کرتے ہو تم کے اصول پر جمے ہوئے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جو ان کے ملک میں سر جھکا کر کہتے ہیں کہ یا شہنشاہ آپ کی نوازش کہ آپ نے میری گاڑی کو اس قابل سمجھا کہ اس میں اپنی کروڑوں کی گاڑی ٹھوکی۔ اور پاکستان میں چونکہ یہ معاملہ خاصا پیچیدہ ہے تو یہ تمام باتیں بے اثر ہوجاتی ہیں۔ کبھی قطری خط، کبھی گاڑیاں، کبھی قطری خود اور کبھی سٹیل ملز اور فلیٹس سامنے آجاتے ہیں۔ اور جو لوگ ان کی باتوں پہ گندے انڈوں کی بجائے سر دھنتے ہیں وہی اس ملک کے سب سے بڑے دشمن اور گنہگار ہیں۔
اب دورہ پانچ دن کا ہو، تین یا پھر دو گھنٹے کا ہمیں ہر حال میں شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ مسئلے مسائل ہمارے ساتھ ہیں ان کے ساتھ نہیں۔
سب سے زیادہ قابلِ فکر بات سیاسی حلقوں کی اخلاقی گراوٹ ہے۔ نہ تو اخلاقیات کی کوئی حد میڈیا پہ مقرر ہے اور نہ ہی سیاستدان اس کو کسی خاطر میں لاتے ہیں۔ کوئی خان حکومت کرے، کوئی میاں، زرداری، بھٹو یا پھر چور ڈاکو پتہ پانچ سال میں چل جائے گا۔ جیسا کہ گزشتہ حکمرانوں کے کار ہائے نمایاں اب سامنے آرہے ہیں۔ تو اگر تبدیلی سرکار بھی وہی فرسودہ سیاسی روایات کو وضاحت کے لیے استعمال کرتی ہے تو 22 کروڑ لوگوں میں سے ہزار پانچ سو کو نکال لیں تو گندے انڈوں کی مانگ بڑھ جائے گی۔ جن سے سیاستدان، بیوروکریٹ، اور دیگر ریاستی مامے خاں مستفید ہوں گے۔ ہاں البتہ خلائی مخلوق کے لیے آپ کو انڈے خلا میں لےکے جانا پڑیں گے جو کہ کافی کٹھن کام ہے۔

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔