1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. علم و اَدب اور نسلِ نو!

علم و اَدب اور نسلِ نو!

تہذیب اور تخلیق کسی معاشرے کے بامقصد تشخص کی عمارت کے دواہم ستون ہیں۔ تہذیب سماج کے تنظیمی اصولوں کی عملداری۔ جب کہ تخلیق زندگی کے اخلاقی اور جمالیاتی رویوں کی کارپردازی ہے۔ تہذیب اور تخلیق دونوں آپس میں اس طرح گندھے ہوئے ہیں جیسے پھول میں رنگ اورخوشبو ایک ہی جگہ جمع ہیں۔ تہذیب ماضی کی طویل مسافت میں سماجی قافلے کے قدموں کے نشانات ہیں جس کی جھلملاہٹیں روزمرہ زندگی میں دکھائی دیتی ہیں اورتخلیق اسی تہذیب کے بطون میں کارفرما وہ نظام اخلاق وجمال ہے جس کی بدولت سماج اپنی قدری حیثیت کے طورپر پہچانا جاتا ہے۔ کسی بھی سماج کاآرٹ معروضی طورپرا س کی تہذیب اور موضوعی حیثیت میں اس کی تخلیقی توانائی کی نشاندہی کرتا ہے۔ مقصد ادبی اثریت کاوہ خاموش اور خفیہ کارندہ ہے جو دھیرے دھیرے بغیر بلند بانگ اعلان کے معاشرے کی روح میں اثر کرتا جاتا ہے۔ نئی نسل کیلیے ادب کی تعلیم نہایت ضروری ہے کیونکہ اس ادب کا مطالعہ نوجوانوں کے ذہن میں اپنی تہذیبی اور ثقافتی قدروں اور روایتوں کی بنیاد قائم کرتا ہے۔ پھر اس ادب کا مطالعہ اسلیے بھی ضروری ہے کہ قدیم و جدید کا تقابلی مطالعہ کیا جا سکے اور اس امر کا تجزیہ کیا جا سکے کہ ہمارا قومی ذہن کہاں سے سفر کرکے کہاں تک پہنچا ہے اور وہ کون سے تقاضے تھے جن کے تحت یہ تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ مگر یہ تقابلی اور تجزیاتی مطالعہ جبھی ممکن ہے جب نئی نسل کو جدید ادب بھی پڑھایا جائے اور اس پر اس عصر کی شخصیت کے خد و خال بھی واضح ہوں جس میں وہ سانس لے رہا ہے اور جسکی کٹھن راہوں کو طے کرکے اسے مستقبل کو سنبھالنا اور سنوارنا ہے۔ درسی کتابوں میں صرف قدیم ادب کے نمونے شامل کرنے کا سلسلہ کیسے چلا۔ اَدب سے دوری اس لیے ہوتی کہ نئی نسلیں ان سلگتے ہوئے جذبات اور ان بے قرار امنگوں سے متعارف ہی نہ ہو پائیں جن سے ہر دور کی جدید ادبی تخلیقات لبریز ہوتی تھیں۔ بہت سی دوسری باتوں کی طرح دورِ غلامی کی یہ روایت بھی ہمارے ہاں کم و بیش بدستور قائم ہے اور یہ اس حقیقت کا دردناک ثبوت ہے کہ ہم پر تعلیم کی آزادی کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہے۔ درسی کتابوں میں سے۔ برصغیر میں انگریز کا رائج کردہ نظامِ تعلیم تو براہ راست ہماری نئی نسلوں کے لاشعور تک پر حملہ آور رہتا تھا۔ اسکا تخریبی عمل زیادہ تر نفسیاتی تھا۔ اسکے اثرات بیشتر غیر محسوس تھے۔
اقبالؒ نے ان دنوں انتقال کیا جب انکے طرزِ فکر کے اثرات ادیبوں کی نئی نسل کے ذہنوں پر پوری طرح مرتسم ہوچکے تھے اور ساتھ ہی جب ''شفق نہیں مغربی افق پر، یہ جوئے خوں ہے، یہ جوئے خوں ہے'' کا انتباہ ایک سچی پیش گوئی ثابت ہونے والا تھا، 1938ء سے 1947ء تک کے عرصے میں اس دور کے اہلِ قلم کی نئی نسل نے جو ادب تخلیق کیا وہ ہماری قومی تاریخِ حریت کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔ پھر اس زمانے میں جو افسانے لکھے گئے انکا جواب کم سے کم ایشیا کا تو کوئی دوسرا ملک نہیں دے سکتا۔ اسی طرح نئی نظموں میں بھی ہمارا جذبہ آزادی جس بے خوفی سے منعکس ہوا، اس پر ان سب لوگوں کو فخر کرنا چاہیئے جنکے ہاتھوں میں قلم ہیں۔ اس دور کی نظم و نثر سے آج کی نئی نسل کو محروم رکھنا اگر ظلم نہیں تو ظالمانہ کوتاہی ضرور ہے۔ ہماری نئی نسل کو آزادی کے مفہوم سے آگاہ ہونا چاہیئے۔ آزادی ہمارا پیدائشی حق ہے۔ دس برس کا یہ ادب ہماری ادبی اور قومی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ نئی نسل اس زمانے کے شعر و ادب کے چند نمائندہ نمونوں سے آگاہ ہوگی تو اسکی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ وہ اپنے آپ کو ایک مقدس روایت کا وارث قرار دے گی اور اسے محسوس ہوگا کہ غلامی کتنی بڑی لعنت ہے کہ اسکے خلاف فنونِ لطیفہ تک چیخ اٹھتے ہیں۔ غیر ملکی سامراج کے تسلط سے متعلق پڑھے لکھے طبقے کی نفسیات تک کو بدل ڈالنا 1938ء سے 1947ء تک کے اہلِ قلم کا ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔
اَدب زندگی کاترجمان، شارح اور نقاد ہونے کی حیثیت سے وہی مقاصد رکھتا ہے جوزندگی اور انسانیت کے مقاصد ہیں۔ اگرادیب کسی خاص جغرافیے اور ایک خاص معاشرے میں سانس معاشرے کے عناصر میں جوباہمی آویزش، کھینچا تانی اور کشمکش کی صورتیں ہیں ان کاراستہ تصادم کی طرف جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑے، فساد، افراتفری، قتل وغارت گردی، مذہبی لسانی، معاشی اورسیاسی انتہاپسندی، مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے انتشار جنم لیتا ہے۔
ایسے میں اَدب اورادیب کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ جب معاشرہ انحطاط و ادبار اورذلت کاشکارہوجائے۔ جب نسل آدم انتشار وہیجان میں گھر جائے اور سکون
و ا من کی تلاش میں سرگرداں ہو۔ اس صورتحال میں تہذیبی قدریں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوجائیں گی۔ یہاں تخلیق، تہذیب کوناتوانی سے بچانے کافریضہ ادا کرتی ہے اور ادیب بچشم نم اور بہ قلب حزیں معاشرے کے تن شکستہ میں زندگی کی روح پھونک کرمسیحائی کرتا ہے۔ قوم کے افراد کی سوچ میں مثبت تبدیلیاں لانے اور اخلاقی تربیت کرنے میں ادیب کاکردار سب سے اہم ہے۔
معاشرے کے ارتقاء کے لیے اخلاقی ذریعہ بنے۔ اس کا فن لطیف اعلیٰ ترین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ نیکی کے حسن اور بدی کی بدصورتی کواجاگر کرے۔
نیلگوں آسمان کے نیچے دُنیا کا کوئی خطہ زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہیں ہے جہاں ادب یا ادیب نے ظلم کی حمایت کی ہو۔ ماضی کا کوئی لمحہ ایسانہیں ہے جب اہل قلم نے جبر اوربدامنی کاساتھ دیا ہو۔ پیغمبر اور ادیب کے کردار میں کم ازکم ایک پہلو مشترک ہوتا ہے کہ وہ پیدائشی طورپر ظلم کی بدصورتی کے خلاف ایک خوبصورت نظام امن کے داعی اور ایک تہذیبی معاشرے کی تشکیل کے تمنائی ہوتے ہیں۔ کرہ ارض کے انسان کدے میں جہاں بھی انسانیت، ظلم اور جبر کی آگ میں جھلسے گی۔
ادیب کسی بامقصد معاشرے قافلے کے ایسے فکری رہبر ہوتے ہیں جوسماج کے باقی افراد کے مقابلے میں زیادہ فلسفیانہ صداقتوں کے ساتھ ایک اعلی شعور، ایک ارفع تخیل اور زیادہ سچی اور شادمان طبعیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ ہرلحظہ نیا طور، نئی برق تجلی ان کے پیش نظر ہوتی ہے وہ سماج کے لوگوں کے لیے اعلی پائے کی حکمت، مسرت اور نیکی کے موجد ہوتے ہیں۔ انبیا ء کرام کو چھوڑ کر باقی پوری انسانی تاریخ کا کوئی سیاست دان، کوئی بادشاہ، کوئی جرنیل، فساد فی الارض، بدامنی اورآدم کی ارزانی کااتنا برملا، واضح اور سچا مخالف نہیں ہوسکتا جتنا شاعر اور اہل قلم ہوتا ہے۔
ادب کی فردوس قلب وروح بہارجاوداں کو نکال دیا جاتا تو کیا پھربھی دُنیا کے معاشروں کی علمی، جذباتی، نفسیاتی، فکری اور تہذیبی ہیئت ایسی ہی ہوتی یاتہذیبی و فکری بدصورتی کادیواستبداد ہرسو رقص کررہا ہوتا۔ دُنیا کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کوئی معاشرہ ظلم و استبداد کے غلبے میں آیا۔ جب بھی روئے زمین پر ظلمت کے مکروہ سائے منڈلانے لگے جب بھی سماج دشمنی کی بادسموم چلنے گی یا تو پیغمبر ان عظیم المرتبت کی مقدس آواز کی روشنی نے غرور ظلمت توڑ ا یا اہل قلم کی پردانش اور گداز صدائے دل نشین کام آئی۔
آج معاشرہ نفسیاتی، سیاسی اور اخلاقی ناہمواری کے دور سے گزررہاہے۔ علاوہ ازیں دیگر اقوام عالم کی تیزرفتار معاشرت کا سامنا بھی ہے۔ اب اہل قلم کے اخلاقی کردار کے اس شعبے کی جو سماج میں موجودہیجان انگیز کیفیتوں کو سکون اور احترام آدمیت کی میٹھی اور ٹھنڈی روشنی عطا کرے۔ زیادہ ضرورت ہے انسانی معاشرے کا وہ کردار جوقوم کے ہرفرد اور ریاست کے ہر شہری میں اخلاقی قدروں پر بے خوف عمل کرنے کی خواہش پیدا کردے۔ دراصل تہذیبی اور جمالیاتی کردار ہوگا۔ جس معاشرے میں فرد کی ہستی کو ترقی اورارتقاء کامناسب خوشگوار ماحول اور حوصلہ افزائی مل سکے۔ وہی معاشرہ "پرامن"کہلانے کا حقدار ہوگا اور اس ماحول کی بامقصد بنیاد اس درد مند اہل علم کے قلم کی روشنائی فراہم کرتی ہے جواپنی فکر کوتخلیقی سانچوں میں ڈھالتا ہے۔ ہمیں نسل نو کو علم و اَدب کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ اسی میں ہماری بقا ء ہے۔

عابد ہاشمی

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔