1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. کچھ تاریخ کے تلخ دریچے سے

کچھ تاریخ کے تلخ دریچے سے

قدیم و جدید علوم سے اسلام نے روشناس کروایا۔ اسی سبب انہوں نے دوسری قوموں کے علوم کی جستجوشروع کی۔ آج ہمیں اپنے اسلاف کی علمی کاوشوں کا علم ہی نہیں، ہم نے انہیں اپنا راہبر سمجھ لیا، جن کی طرف سورج بھی جا کر ڈوب جاتا ہے، اگر ہم علمی دُنیا، یونیورسٹی کی بات کریں تو اس میں بھی مسلمانوں کا کلیدی کردار ہے۔ مغربی مفکرین اور تاریخ دان بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کے ہاں جو قدیم سے قدیم یونیورسٹی بھی قائم ہو ئی وہ مراکش کی جامعتہ الفروبین ہے جوسینکڑوں سال پہلے بنی۔

مراکش کا قدیم ترین شہر فاس، جس کے وسط میں جامعہ القرویین قائم ہے، جو دُنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ یہ یونیورسٹی ایک مسلم خاتون نے بنوائی تھی۔ نویں صدی کے وسط میں فاس جو ادریس سلطنت کا دارالحکومت تھا، وہاں قرویین شہر سے فاطمہ نامی رئیس زادی اپنے والد اور بہن مریم کے ہمراہ آکر بس گئیں، فاطمہ کی شادی یہاں ہوئی، والد کی وفات کے وقت دونوں بہنوں نے جامعہ القرویین کے قیام کا منصوبہ بنایا، یوں تعلیم کے ساتھ رہائش کی ایک بڑی عمارت تیار کی گئی۔

فاطمہ نے یونیورسٹی کی تعمیر اپنے حصے کی وارثت سے کی، وہ اس کی تعمیر کے دوران زیادہ تر روزے رکھتیں، جامعہ القرویین 18 سال میں تیار ہوئی۔ فاطمہ کی بہن مریم نے اپنے حصے کی دولت سے اندلسین نامی مسجد بنائی، جس کی سجاوٹ اعلیٰ معیار کی تھی بلکہ وہ اتنی وسیع تھی کہ اس میں بیک وقت 20 ہزار نمازی عبادت کرسکتے تھے، یونیورسٹی اور مسجد کی خوبصورتی آج بھی یہاں آنے والوں کیلئے مرکز نگاہ کا درجہ رکھتی ہے۔

شہر میں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بھی قدیم یونیورسٹی کی عمارت ہے، یونیسکو اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق یہ دُنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے جہاں آج بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ تاریخی ریکارڈز کے مطابق جامعہ القرویین دُنیا کی پہلی یونیورسٹی بھی ہے جہاں سند یا ڈگری دینے کا رواج عام ہوا، یہاں گزشتہ 1200 سال سے زائد عرصے سے درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔ اس یونیورسٹی سے بڑے دانشور وابستہ رہے ہیں، جن میں ابن رشد، ابن خلدون، محمد الادریسی، ابن میمون، محمد تقی الدین الہلالی، امام البنانی، احمداللہ الغماری، عبدالکریم الخطابی، محمد الوزان الفاسی یا لیو افریکانس وغیرہ شامل ہیں۔

یہ دُنیاکی قدیم ترین ایسی یونیورسٹی ہے جو آج تک قائم و دائم ہے۔ اس کے مقابلے میں قاہرہ کی جامعہ الازہر 971ء میں قائم کی گئی تھی، یہ القرویین سے 112 برس بعد قائم ہوئی۔ فیض شہر نیا نیا آباد ہوا تواس کے حکمران نے یہ دعا مانگی تھی کہ "اے خدا، اس شہر کو ایسا علمی مرکز بنا دے جہاں قانون، سائنس اور تیری کتاب کی تعلیم دی جائے"۔ اس حاکم کی دعا یوں قبول ہوئی کہ ایک متموّل سوداگر کی بیٹیوں محترمہ فاطمہ الفہری اورمحترمہ مریم الفہری نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد ترکے میں ملنے والی دولت سے ایک عظیم الشان مسجد بنانے کا تہیہ کرلیا۔

جب مسجد بنی تو اس زمانے کے رواج کے مطابق اس کے ساتھ ایک مدرسہ بھی قائم کیاگیا۔ جامعہ الازہر کا آغاز بھی مسجد سے ملحق مدرسے کے طور پر ہوا تھا۔ جب فاطمہ کا مدرسہ چل پڑا اور اس میں دور دور سے طلبا علم کی پیاس بجھانے کے لیے آنے لگے تو اس عہد کے سلاطین بھی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے اس مدرسے کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ جلد ہی وہ وقت آیا کہ جب مدرسے میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد آٹھ ہزار سے تجاوز کر گئی۔ آنے والی صدیوں میں مسجد اور مدرسے میں مسلسل توسیع ہوتی رہی اور مدرسہ جامعہ القرویین کہلانے لگا۔

جامعہ القرویین میں صرف دینی علوم ہی نہیں بلکہ دُنیاوی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے، جن میں صرف و نحو، منطق، طب، ریاضی، فلکیات، کیمیا اور تاریخ شامل تھے۔ جامعہ سے اسلامی تاریخ کی کئی بلند قامت شخصیات وابستہ رہی ہیں۔ اس تاریخی ادارے نے عالمِ اسلام اور مغرب کے درمیان صدیوں تک علمی اور ثقافتی پل کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبامیں کئی غیر مسلم محقیقن بھی شامل ہیں۔

مثال کے طور پر یورپ میں عربی ہندسے اور صفر کا تصور متعارف کروانے والے پوپ سلوسٹر ثانی اسی یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے۔ سلوسٹر ثانی 999ء سے 1003ء تک پوپ کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مشہور یہودی طبیب اور فلسفی موسیٰ بن میمون بھی اسی جامعہ کے طالبِ علم رہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشہور جغرافیہ دان محمد الادریس نے بھی اسی جامعہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے بنائے ہوئے نقشہ جات سے یورپ کے لوگوں نے خاصا فائدہ اٹھایا۔ 1912ء میں مراکش پر فرانس کے قبضے کے بعد جامعہ کا زوال شروع ہوا۔

دُنیا کی ایک اور قدیم یونیورسٹی گونڈی شاہ پوریونیورسٹی 215 عیسوی میں ایران کے شہر شاہ آباد کے جنوب میں قائم ہوئی۔ 832 عیسوی میں خلیفہ ہارون رشید نے بغداد میں دارالحکومت قائم کیا تو اس کی منصوبہ بندی گونڈی شاہ پورکے طرز پر کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ 713 عیسویں میں تیونس میں الزیتون یونیورسٹی میں قائم ہوئی۔ ابتدائی طور پر مسلمانوں کی تعلیم کا باضابطہ نظام نہیں تھا۔ مساجد میں مباحثے ہوتے، غیر مسلم عالم اور مذہبی رہنما مسجد میں آ کر اپنے سوالات پیش کرتے تھے۔

دیگر مدرسوں سے اس لئے مختلف تھی کہ یہاں تعلیم دینے کے بعد استاد اپنے شاگردوں کو یہ اجازت دیتے تھے کہ وہ بھی شاگرد بنا سکتے ہیں۔ شاگرد بنانے کی اجازت آج کے زمانے میں گریجویشن کی تقریب سمجھی جاسکتی ہے۔ عظیم فلسفی اور سماجی سائنسدان ابن خلدون نے ابتدائی تعلیم اسی یونیورسٹی میں حاصل کی۔ انہوں نے دُنیا کی تاریخ پر 7 کتابیں تحریرکیں۔

نظامیہ یونیورسٹی ایران، عراق میں 1065ء میں قائم ہوئی۔ 1065ء میں خواجہ نظام الملک طوسیٰ نے نظامیہ طریقہ تعلیم کا آغازکیا۔ یہ تعلیمی نظام کا ایک منفرد سلسلہ تھا جو ایران کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا عراق کے شہر بغداد بھیج دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نظام تعلیم جامعہ فاطمتہ الزہرا کے مقابلے یا اس کو کم کرنے کے تصور کے ساتھ شروع ہوا۔ نظامیہ نظام تعلیم بہت مربوط طور پر شروع کیا گیا۔ اس یونیورسٹی کے نصاب میں اسلامی قوانین کے علاوہ 80 فیصد تک حصہ موجود رہا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی1187ء میں قائم ہوئی۔ بادشاہ ہنری دوئم نے 1167ء میں انگلستان کے طلبہ کی پیرس یونیورسٹی میں داخلہ پر پابندی لگائی تھی۔ اس پابندی کی بناء پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی لائبریری انگلستان کی دوسری بڑی لائبریری ہے۔ اس یونیورسٹی کا پریس دُنیا کا سب سے بڑا اشاعتی ادارہ ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں قائم ہونے والا میوزیم آج بھی نوجوانوں کے لئے انتہائی پرکشش ہے۔

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی 1213ء میں قائم ہوئی۔ بادشاہ ہنری سوئم نے اس ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ دیا۔ کیمبرج یونیورسٹی میں طویل عرصے تک لڑکیوں کا داخلہ ممنوع رہا۔ 1869ء میں یہاں لڑکیوں کا پہلا کالج قائم ہوا مگر یونیورسٹی میں تین ایسے کالج ہیں جہاں صرف لڑکیوں کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ عظیم سائنسدان سٹیفن ولیم ہاکنگ نے کیمبرج سے تعلیم حاصل کی۔ چارلس ڈارون نے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔

قدیم یونیورسٹی چین میں بادشاہ سنگ کوان نے250 قبل مسیح نانجنگ یونیورسٹی قائم کی گئی۔ ایک تاریخ دان زیاؤ کو اس یونیورسٹی کا پہلا صدر مقررکیا گیا تھا۔ یہ بڑی یونیورسٹی155 کمروں پر مشتمل تھی۔ تاریخ دان زیاؤ کو باضابطہ طور پر شاہی خاندان کی تاریخ لکھنے پر معمور تھے۔ 16 ویں صدی کے آغاز سے چین میں قابل ذکر تبدیلیاں عمل میں آرہی تھیں۔ 1902ء میں جاپان کے طریقہ تعلیم سے متاثر ہو کر ایک کالج کی داغ بیل ڈالی گئی۔ 1915ء میں فزیکل تعلیم کا ادارہ قائم ہوا۔ 1918ء میں چین کی سائنس سوسائٹی بنائی گئی۔ 1920ء تک چین کے 50 فیصد سائنسدانوں کا تعلق نانجنگ یونیورسٹی سے رہا۔ 1919ء میں یونیورسٹی کے دروازے خواتین کے لئے بھی کھول دیئے گئے۔ 1976ء میں چین میں برپا کئے جانے والے ثقافتی انقلاب میں نانجنگ یونیورسٹی کا کردار اہم رہا تھا۔

دُنیا کی قدیم الازہر یونیورسٹی 973 عیسوی میں قاہرہ میں قائم ہوئی۔ الازہر یونیورسٹی کا قیام فاطمی حکمرانوں کے ایک فوجی سردار جواہر کے ہاتھوں سے ہوا۔ 1941ء میں مصر کے صدر عبدالناصر کے حکم پر جامعہ الازہر کو باقاعدہ طور پر یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ حکومت کی کاوش سے دور جدید کے علوم کو یونیورسٹی کا حصہ بنادیا گیا۔ یونیورسٹی آف اسلامنکا 1130ء میں قائم ہوئی۔ اس سال کرسٹوفر کولمبس سپین کے بادشاہ سے بار بار درخواست کررہا تھا کہ ہندوستان کا نیا راستہ دریافت کرنے کے لئے اس کی مدد کی جائے۔ پیرس یونیورسٹی کا قیام 1170ء میں عمل میں آیا۔ یونیورسٹی کو کلیسا کے قوانین کے تحت چلایا جاتا تھا۔ طلبہ کو 13 سال کی عمر میں داخلہ دے دیا جاتا تھا۔ طلبہ نہ تو بادشاہ کے قوانین کے پابند تھے اور نہ ہی شہری قوانین کا نفاذ ہوتا تھا۔ جب کوئی طالب علم ریاستی قوانین کی خلاف ورزی کرتا تھا تو یونیورسٹی انتظامیہ کے حوالے کیا جاتا تھا۔

المختصرجس میدان میں بھی دیکھا جائے اسلاف کا کردار نمایاں ہے، ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہو گا۔ نہ کہ اُن کے جنہیں ہم تو سب کچھ مانتے ہیں، لیکن وہ شائد ہمیں جانتے تک نہیں۔ اگر امت مسلمہ کی دو بیٹیاں یونیورسٹی اور مسجدبنا سکتی ہیں، تو ہم کیوں لاچار و بے بس ہیں؟

عابد ہاشمی

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔