1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. اپنی ذمہ داری نبھائیں

اپنی ذمہ داری نبھائیں

آپ دنیا کے کسی بھی خطہ میں چلے جائیں آپ کا واسطہ مختلف المزاج لوگوں سے ضرور پڑے گا۔ کچھ لوگ ٹھنڈے مزاج کے ہوتے ہیں اور کچھ گرم مزاج کے، کچھ سخت اور کچھ نرم مزاج کے۔ اسی طرح لوگوں کے شعبے بھی مختلف ہوتے ہیں کوئی بہت بڑا کاروباری ہوتا ہے تو کوئی سیاسی، کوئی ملازم، تو کوئی صحافی اور کوئی ویلا۔ اور پھر ہر انسان جس شعبہ میں ہوتا ہے حتی الامکان اس شعبے کا دفاع ضرور کرتا ہے۔ اگر وہ بالکل فارغ ہوگا تو اس کی اس فراغت پر بھی اس کے پاس دلائل کے انبار ہوں گے، باقی جو کچھ نہ کچھ کرتے ہیں ان کا آپ خود ہی اندازہ لگا لیں۔

اس طرح جو انسان جس شعبہ میں ہوتا اس کا وہ خوب تجربہ بھی رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ میں نے اپنے مقابل سے کس طرح ڈیل کرنی ہے، اگرچہ بظاہر کسی انسان کو اس کے ٹھنڈے اور گرم مزاج پر اعتراض ہو سکتا ہے، لیکن وہ جانتا ہے کہ میں نے اس بھیڑ میں کیسے چلناہے۔ میں کس موقع پر کس طرح کی بات کرنی ہے، میں نے کب کس کے ساتھ کھڑا ہونا ہے اور کب کس کی مجلس سے الگ ہونا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ وہ درست ہوگا کبھی غلطی بھی ہوگی کبھی قدم بھی پھسلے گا، اور کبھی وہ سنبھل کر ایک مستقل المزاج بھی بنے گا۔

اسی طرح آج اگر ہم تھوڑی سی توجہ دیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کہ سیاست کا شعبہ الگ ہے، کاروبار کا شعبہ الگ ہے، طالب علمی کا شعبہ الگ ہے، تصنیف کا شعبہ الگ ہے، تدریس کا شعبہ الگ، کرکٹ کا شعبہ الگ ہے۔ اگرچہ یہ کہ شعبے مختلف ہیں لیکن جب وہ ایک رعایا ہوتے ہیں تو تب وہ سب ایک ہی شمار ہوتے ہیں۔ اگر کسی ملک کا کوئی بادشاہ ہے، لیکن اس کی رعایا میں سے کوئی اثر و رسوخ والا انسان اس کے بادشاہی کا انکار کرے تو ایسا نہیں ہوتا کہ وہ کو جو چاہے کرتا پھرے، بلکہ وہ مانے نہ مانے، بادشاہ جس طرح ایک سڑک کے کنارے بھیک مانگنے والے کا بادشاہ ہے، اسی طرح وہ اس کا بھی بادشاہ ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ بادشاہ ان باتوں کو بھول جایا کرتے ہیں، اور اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتے۔

لیکن ہمارے ملک میں چونکہ سیاسی نظام ہے، اس لئے سیاست میں سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی ملک پر نظر ڈالیں سیاسی اختلاف پایا جاتا ہے، ہم یہاں ہوتے ہیں ہمیں صرف اپنے ملک کا اختلاف نظر آتا ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں باقی کسی ملک میں کچھ نہیں ہورہا، حالانکہ ایسا نہیں۔ اوریہاں محض ایک سیاسی اختلاف کی بنیاد پر کسی کو کچھ بھی کہہ دیا جاتا ہے، یہ بھی غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔

جیسے آج کل اگر سیاسی اختلاف کو دیکھا جائے تو سب سے سخت اختلاف حکومت اور اپوزیشن کا ہے اور پھر خاص کر کے مولانا صاحب کا اختلاف تو قابل تذکرہ بھی ہے۔ لیکن اگر ہم یہ سوچیں کہ عمران خاں صاحب نے بین الاقوامی سطح پر ایک بہت اچھی تقریر کرلی ہے، لہذا اب کسی کو ان سے کوئی اختلاف کا کوئی حق نہیں، یہ شاید درست نہیں۔ باوجود اس کے اس تقریر پر عمران خان صاحب کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ اور بحیثیت رعایا ہونے کے ہر خاص و عام نے عمران خان صاحب کو خراج تحسین پیش بھی کی ہے، بہت بڑے بڑے نام جیسے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت براکاتہ، مولانا طارق جمیل صاحب نے خراج تحسین پیش کی، جن کے روشن نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ اتنے علم والے لوگ ان کی تعریف کر رہے ہیں لیکن کچھ سیاسی لوگوں نے کما حقہ تعریف نہیں کی تو یہ موازنہ درست نہ ہوگا۔ کیونکہ میں اوپر ذکر کر چکا کہ ہر بندہ اپنے شعبے میں ماہر ہوا کرتا ہے اور جو انسان جس شعبہ میں ماہر ہے وہ اس میں اچھی طرح چل سکتا ہے، لہذا کسی ایک شعبے کے افراد کا موازنہ کسی دوسرے شعبہ کے افراد سے کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔

لیکن جب ملک کے اندرونی حالات پر غور کیا جائے تو پھر ہمیں کسی ایسے انسان کی ضرورت ضرور محسوس ہو گی جو حکومت کی غلطیوں پر کھل کر تنقید کر سکے۔ اس لئے کہ ایک عام فرد اگر کسی چوک میں کھڑا ہو کر کسی بھی حکومتی غلطی پر سخت رد عمل کا اظہار کرے تو معاشرے میں اس کے لئے بڑی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگرچہ حکومتوں کا یہ دعوی رہا کہ ہم برائی کا خاتمہ کریں گے، لیکن برائی کو برائی تسلیم کرانا بھی تو ایک مشکل کام ہے۔ اور اس ذمہ داری کو باور کرانے کے لئے کسی سیاسی حریف کی ضرورت پڑتی ہے۔

اسی طرح کچھ لوگ ہر کام میں آدھے آدھے گھسے ہوتے ہیں، سیاست میں بھی، صحافت میں بھی، کاروبار میں بھی اور بھی جو کچھ ان کے ہاتھ لگ جائے، وہ اپنی منوانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ اور یہ معاملہ تب ہوا کرتا ہے جب انسان اپنی ذہنیت کسی کے سپرد کر دیتا ہے، اور جس بات کی خواہش رکھتا ہے اس کو بالکل درست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، کسی افسانے کو حقیقت کے رنگ میں پیش کیا جائے تو وہ اسی کے گرد طواف کرتا ہے، اور سرعام حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر نظر آتا ہے، یہ بھی غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔

لیکن ہمیں چاہئے کہ بحیثیت مجموعی ہماری جو ذمہ داری ہے اس کو مکمل طور پر نبھائیں، اور وہ ذمہ داری رعایا ہونے کی ہے، بحیثیت رعایا اپنے ملک، اپنی نظریاتی اور جغرافیائی حدود کی نگرانی کرنی ضروری ہے۔ کسی غلط اور من گھڑت چیز کو پھیلانا نہیں چاہیے، اور حقیقت کو چھپانا نہیں چاہیے۔ اور بحیثیت رعایا جس کو جو کام سپرد کیا گیا ہے اسی پر توجہ دے، دوسروں کے کام میں ٹانگ نا اڑئے، اور نہ تنقید برائے تنقید کرے۔ اور اگر آپ وطن سے بہت محبت رکھتے ہیں، اور اس کی ترقی میں اہم حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو پھر سچ تو یہ ہیکہ ہر انسان اپنی ذمہ داری ہی مکمل نبھا لے تو یہ بھی ملکی ترقی کے لئے بہت بڑا قدم ہوگا۔