1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. ہم اور ہماری تعلیمی روِش (2)

ہم اور ہماری تعلیمی روِش (2)

کامیاب قومیں ظاہری نمود و نمائش سے ہٹ کر مقاصد کو مد نظر رکھتی ہیں، وہ بے فائدہ نقالی سے پرہیز کرتی ہیں، وہ بنیادی اخلاقیات، اپنی زبان اور ثقافت کو اولین ترجیح دیتی ہیں، اور یوں کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں۔ ہمارے سامنے چین ایک مثال کے طور پر موجود ہے، جو ایک ایسی معاشی طاقت کے طور پر ابھر چکا ہے جو دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کے لیے ڈراؤنہ خواب بن چکا ہے، اس کی یقینا بہت سی وجوہات ہیں، لیکن ایک اہم وجہ وہاں کا بنیادی تعلیمی نظام ہے، وہ اپنے بچوں کو کسی زبان کا محتاج نہیں بناتے، اور نا ہی وہ کسی زبان کی آڑ میں اپنے بچوں کو علم سے محروم رکھتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو ان کی اپنی زبان میں ہر علم مہیا کرتے ہیں۔ جبکہ ملک پاکستان کی چودہ سالہ تعلیم میں انگلش ایک لازمی مضمون کے طور پر داخل ہے۔ جو بہت سے نوجوانوں کو علم سے محروم کر چکا ہے۔

جاپان کو لیجیے، جہاں چار سال کے بچوں سے امتحان لینے کا کوئی تصور موجود نہیں، بلکہ اس دورانیہ میں ان کی کردار سازی پر بھر پور توجہ دی جاتی ہے، انہیں اپنے معاشرے میں ایک اچھا انسان بننے کی بنیادی خوبیوں سےمزین کیا جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں "ابھی بچہ ہے" کے فارمولہ کے تحت اخلاقی پستی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اور اس کے بڑے ہوکر اچھا انسان بننے کی امیدیں لگائی جاتی ہیں۔ جاپان کی اس تعلیمی پالیسی نے اپنے معاشرے پر جو اثرات مرتب کیے ان کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں!بارہ کہو، اسلام آبادمیں ایک پاکستانی نژاد برٹش انڈین آرمی کے سپاہی بقید حیات مقیم ہیں، انہوں نے بتایا کہ جنگ عظیم دوم میں ہمیں جاپان میں یہ ڈیوٹی دی گئی کہ کسی بھی جاپانی فوجی کو دیکھیں تو قید کر لیں، چنانچہ ہم اس ڈیوٹی کو سرانجام دیتے رہے، اسی دوران ہمارا سامنا ایک ایسے فرد سے ہوا جو باوردی نہیں تھا، ہم نے اس سے پوچھا کیا آپ فوجی ہیں؟ تو اس نے جواب دیا، جی بالکل میں ایک جاپانی فوجی ہوں، تو ہم نے اسے پکڑ کر قید کر لیا، قید کے دوران ہم نے اس سے کہا اگر آپ فوجی ہونے کا انکار کر دیتے تو ہم آپ کو کچھ بھی نہ کہتے، آپ نے سچ بول کر خود اپنے آپ کو پھنسایا ہے، تو جاپانی فوجی نے جوجواب دیا وہ ایک صحت مند معاشرے کی بنیادی خوبی ہے، اس نے کہا: دراصل ہم نے دھوکہ کہ زبان سیکھی ہی نہیں، اور نہ ہی یہ خیال ہمارے دماغ میں سرایت کرتا ہے کہ ہم کسی کو کسی قسم کا دھوکا دیں۔

اس کے علاوہ جاپان میں کوئی بھی انسان اپنے تعلیمی دورانیہ کی تکمیل کے لیے انگریزی یا کسی بھی غیر ملکی زبان کا محتاج نہیں۔ ہاں اگر کوئی اپنی کسی مجبوری یا شوق کی بنا پر سیکھنا چاہے تو کوئی پابندی بھی نہیں۔ اور تمام علوم کی اصطلاحات اور جدید ترین معلومات جاپانی زبان میں موجود ہیں۔ جب امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملہ کر کے جاپان پر غلبہ حاصل کیا تو جاپان نے اس کڑے وقت میں بھی اپنے نظام تعلیم کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھا، اور اس کی حفاظت کی شرط لگائی تھی، جسے امریکا جیسے طاقتور ملک نے ایک معمولی مطالبہ سمجھ کر قبول کیا، لیکن آج دنیا کی بڑی معیشت کے طور پر جانا جانے والا جاپان پوری دنیا میں اپنا لوہا منوا چکا ہے، اس وقت کے جاپانی حکمران نے یہ شرط اس لیے لگائی کیوں کہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ کسی بھی قوم اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں بنیادی کردار اعلی نظام تعلیم کا ہے، جو بکھری قوم اور خستہ حال معاشرے کو ترقی کے اعلی مراتب تک پہنچا سکتا ہے۔ اور یوں اپنے تعلیمی نظام کے بل بوتے پر دنیا کے چپے چپے پر اپنے نام کی گونج کو جنم دیا ہے۔

اسی طرح فن لینڈ کولیجیے، جس کا تعلیمی نظام دنیا بھر میں اہمیت کا حامل ہے، جہاں بچوں کے تعلیمی سفر کی ابتداء سات سال کی عمر میں ہو تی ہے۔ اسی طرح سویڈن نظام تعلیم کا جائزہ لیں، یہاں بھی بچے سات سال کی عمر میں سکول شروع کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان ممالک میں رٹا کلچر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، جب کہ ہمارے ہاں رٹا کلچر ہی سارا کرتا دھرتا ہے، ابتدائی درجات کے علاوہ ڈگری سطح پر بھی اسی پر انحصار کیا جاتا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ طلبہ سمجھ نہیں پاتے، چنانچہ رٹا ان کے ہاں نکل سے پہلے کا آپشن ہوتا ہے، اور نہ سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ علوم اپنی زبان میں میسر نہیں، اگر آپ کہیں کہ یہ حقیقت نہیں تو پھر بتائیں ہمارے پاس کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کمیسٹری، فزکس، بائیولوجی وغیرہ دیگر علوم میں ڈگریاں کر رکھی ہیں، اور وہ تجربات کی بنیاد پر کچھ کر دکھانے کے در پے ہیں؟

جنوبی کوریا پر ایک نگاہ ڈالیں، سنگا پور کو پرکھیں۔ ہر قوم کی ترقی میں بنیادی تعلیم کا مرکزی کردار ہے۔ ان ممالک میں بچوں کے پچپن میں کتابوں کے بوجھ اور زبانوں کے تانے بانے حل نہیں کرائےبجاتے، بلکہ ان کے دل و دماغ کو بنیادی اخلاق سے مزین کیا جاتا ہے، یوں اگر وہ بچہ کسی کو فائدہ نہ بھی پہنچا سکے تو کم از کم معاشرے میں بگاڑ کا سبب نہیں بنتا۔

لیکن ہمارے ہاں ادھا تیتر آدھا بٹیر کی سی صورتحال ہے، انگلش کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، جب کہ علم کہ زبانیں گونگی کی جا رہی ہیں، اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم بھی ترقی کرے، دنیا میں اپنا نام کمائے تو ہمیں ان ممالک کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے، ان کی کامیابی کے راز کو سمجھنا چاہیے، اور ساتھ ساتھ ہمیں یہ اس جانب بھی متوجہ ہونا چاہیے کہ انگریز اگر آگے بڑھ رہا ہے، تو ہم اسے اس زاویے سے نہ دیکھیں کہ وہ انگلش کے بل بوتے پر ترقی کر رہا ہے، بلکہ اس نظر سے دیکھیں کہ وہ اپنی قومی و مادری زبان کے سبب ترقی کر رہا ہے، جب کہ ہم اپنی قومی زبان سے دن بدن دور ہوتےبجا رہے ہیں۔

ہمارے بچے اور نوجوان بھی آگے بڑھ سکتے ہیں اگر انہیں غیر ملکی زبان کی زنجیر سے آزاد کر دیا جائے، کیوں کہ ایک پاکستانی جس طرح اپنی مادری اور قومی زبان میں کامیابی کے مراحل طے کر سکتا ہے اس طرح کسی دوسری زبان میں نہیں کر سکتا۔