1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. ہم اور ہماری تعلیمی روِش (1)

ہم اور ہماری تعلیمی روِش (1)

ہم دیکھتے ہیں ہمارے ارد گر بہت سے لوگ صاحب اولاد ہیں، وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ اور مزین کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں ان کہ اولاد معاشرے میں ایک بہترین انسان کے طور پر ابھر کر سامنے آئے، اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، لیکن بدقسمتی سےوالدین کا اپنارویہ اور بحیثیت مجموعی ہماری تعلیمی روِش جس کی آغوش میں ہمارا معاشرہ سسکیاں لے رہا ہے وہ کچھ اس پائے کے نہیں کہ وہ انسان کو انسانیت کا درس کما حقہ دے سکیں، بچوں کو ابتداء میں ہی ایسا الجھا دیا جاتا ہے، جس میں ان کی دماغی نش و نما متاثر ہو جاتی ہے۔

والدین"ابھی بچہ ہے" کے فارمولہ پرمکمل پابندی سے کار بندہیں، جس کی بدولت ان کی اخلاقی پستی کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اوراس کے بڑے ہوکر اچھا انسان بننے کی امیدیں لگائی جاتی ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جو شاخ ابتدائی مراحل میں ٹیڑھی رہ جائے، اسےتوڑا توجاسکتا لیکن سیدھا کرنا شاید بہت دشوار ہے۔ اسی طرح کچھ والدین ایسے بھی ہیں جو بچوں پر تعلیم کے نام پر ظلم کرتے دکھائی دیتے ہیں، ان کے ناتواں کندھوں پر ایسا بوجھ ڈال دیاجاتا ہے جس کی بدولت وہ تعلیم سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور اس کا روگ ان کے مستقبل کی تاریکی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔

والدین کے بعد کا مرحلہ تعلیمی اداروں کا ہے، ان میں زیادہ تر توجہ زبان پردی جاتی ہے۔ میری بھتیجی جس کی عمر چار سال ہے، وہ اسلام آباد کے ایک نجی سکول میں زیر تعلیم ہے، وہ پلے گروپ میں پڑھ رہی ہے، پچھلے دنوں اس کے امتحانات تھے، جنہوں نے اسے بہت پریشان کر رکھا تھا، ایک دن اس کا اردو کا امتحان تھا، دوران تیاری اس نے "سین" سے سیب یاد کر رکھا تھا۔ پھر چند دن بعد اس کا انگریزی کا پرچہ تھا جس میں اسے "اے" سے ایپل یاد کرانےکی سر دھڑ کی بازی لگائی جا رہی تھی، اس نے کافی کوشش کی لیکن کبھی ایک لفظ بھول جاتی تو کَبھی دوسرا، یوں وہ کافی دیر غور و فکر کرتی رہی اور پھر کہنے لگی یہ تو پہلے "سین" سے سیب تھا، اب یہاں پر "اے" سے ایپل کیسے ہوگیا۔

یہ صرف ایک چار سالہ بچے کی دماغی الجھن نہیں بلکہ وطن عزیز کے جس کونے میں چلے جائیں وہاں یوں ہی کم سن بچوں کو زبانوں میں الجھا دیا جاتا ہے، اور ان کے ذہن میں ایسے نقوش منقش کر دیے جاتے ہیں، جو بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کا اولین مقصد بن جاتے ہیں، جب کہ زندگی کا اصلی مقصد کہیں کھو کر رہ جاتا ہے۔

ان ہی دووجوہات کی بنا پر بنیادی اخلاقیات کا جنازہ ابتدائی مراحل میں ہی نکال دیا جاتا ہے، اور پھر تدفین تک کے سفر میں ہوس، لالچ، نفرت، بے ایمانی، بد اخلاقی، حسد، کینہ، بغض اس جنازے کو باری باری کندھا دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر جب وہ بچہ بڑا ہو کر کسی عہدے تک پہنچ جائے تو خدمت سے زیادہ عہدے کی پروٹوکول سے محظوظ ہونا اس کی فطرت بن چکا ہوتا ہے۔ وہ خادم کےبجائے خدا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کی پاداش میں تعلیم کا مقصد پاؤں تلے روندھ دیا جاتا ہے۔

یہ بچوں کی تعلیم کی حالت زار ہے، اب ذرا بڑوں کی طرف بڑھتے ہیں، ہمیں اپنے گاؤں، محلے اور دوستوں میں ایسے لوگوں سے ہر روز واسطہ پڑتا ہے جن میں سے کچھ دیہاڑی دار اور مزدور ہیں، کچھ گیراج میں کر رہے ہیں، کچھ ہوٹلوں پر برتن مانجھ رہے ہیں، اور کچھ گاڑیوں کے دروازوں میں کھڑے صبح سے شام اڈوں کے نام کی گردانیں گنگناتے رہتے ہیں، کوئی میٹرک چھوڑ کر آیا، تو کوئی ایف ا ے، ایف ایس سی، اور جس نے ہمت کر کے ان میں کامیابی حاصل کی وہ بیچلر لیول پر ہمت ہار گئے، انہیں تعلیم کے میدان کو خیر اباد کہنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟ اور کیا وجہ ہے کہ وہ تعلیم سے دور جہالت کی تاریکیوں میں سر گرداں ہے۔

اسی طرح ایک کثیر تعداد مدارس کے ہونہار طلباء کی بھی ہے جو عصری تعلیم سے نالاں ہیں، انہیں عصری تعلیم کے میدان سے دور رہنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟ یقینا کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو علم کے ذوق و شوق سے محروم ہیں، لیکن اس کے علاوہ کثیر تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جنہیں ایک زبان کے چنگل نے تعلیم کے میدان میں پچھاڑ ڈالا ہے، وہ تمام مضامین کو پاس کر لیتے ہیں لیکن انگلش ان کی تعلیمی مقاصد کی جانب بڑھتے قدم میں واحد زنجیر ثابت ہوتی ہے۔

یقینا انگریزی کسی حد تک آگے بڑھنے کا ذریعہ تو ضرور ہے لیکن جب وہ پیچھے رہ جانے کا سبب بھی بن جائے، تب اس بارے اہل حل و عقد کی سنجیدہ پیشرفت ضروری ہو جاتی ہے۔ جب ایک انسان ایک زبان نہیں سیکھنا چاہتا تو اس کو لازمی قرار دے کر اس کو تعلیم کے زیور ہی سے محروم کر دینا کسی معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔

ٹھیک ہے ہمیں بین الاقوامی سطح پر انگلش کی ضرورت ہے، انگریزی قریبا ستر ممالک کی سرکاری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی زبان بھی ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو وطن عزیز ہی میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں یا دے سکتے ہیں جہاں انگلش کی ضرورت نہیں، البتہ ذہنی کیفیت کچھ اس ڈگر پر چل پڑی ہے کہ علم کی "الف، باء" سے ناواقف بھی اگر انگریزی کے دو جملے (چاہے وہ رٹے رٹائے ہی کیوں نہ ہوں) بول دے تو اسے تعلیم یافتہ سمجھا جاتا ہے اگرچہ وہ اپنی قومی زبان اور بنیادی اخلاقی اقدار سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو۔

لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ کامیاب قوموں کا یہ شیوہ نہیں رہا، وہ ظاہری نمود و نمائش سے ہٹ کر مقاصد کو مد نظر رکھتے ہیں، وہ بے فائدہ نقالی سے پرہیز کرتے ہیں، وہ بنیادی اخلاقیات، اپنی زبان اور ثقافت کو اولین ترجیح دیتے ہیں، اور یوں کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں۔ ان کی ایک جھلک انشاء اللہ اگلی قسط میں پیش کی جائے گی۔