1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. عبادت کب تک۔۔۔؟

عبادت کب تک۔۔۔؟

رمضان کی رونقیں، اعتکاف کی برکتیں، مساجد میں عبادت کے لیئے آنے والے بچوں، بزرگوں اور نوجوانون کو دیکھ کر ایک ناقابل بیان خوشی محسوس ہوتی رہی۔ جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایمانی جذبہ آج بھی ہمارے سینوں میں زندہ ہے۔ ۲۴ گھنٹے مساجد میں عبادت گزاروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کوئی قرآن پڑھ رھا ہے تو کوئی سن رہا ہے۔ کوئی صدقہ کر رہا ہے تو کوئی روزہ وفطرانہ کی ادائیگی کے مسائل کے متعلق علماء کی خدمت میں حاضر ہے۔ کوئی لیلۃالقدر کی تلاش میں ہے، تو کوئی ختم القراۤن کی محفل میں، غرض یہ کہ ایمانی حرارت عروج پر ہوتی ہے۔ ہر مؤمن کی یہ کوشش ہوتی ہیکہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے ربِّ کائنات کو منایا جائے۔

لیکن جب رمضان اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو مساجد کی بہاروں میں واضح کمی محسوس ہوتی ہے۔ جمعہ کے علاوہ بہت کم لوگ بارگاہِ الٰھی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جس سے کچھ معصومانہ سوالات جنم لیتے ہیں۔

کیا ایسا تو نہیں کہ ہمارے رب نے صرف رمضان میں ہمیں کھلایاہو۔ ۔ ؟ اور رمضان گزر جانے کے بعد وہ ہمیں بھوکا رکھتا ہے۔ ۔ کیا ہمارے رب نے ہمیں صرف رمضان میں لباس پہنایا ہے۔ ۔ ۔ ؟ کیا ہماری عبادتیں صرف رمضان میں قبول ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ؟ کیا ہماری پریشانیاں صرف رمضان میں حل ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے رب نے ہمارے روزگار کا بندوبست صرف رمضان میں کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کہیں رمضان کے علاوہ عبادت سے روگردانی کرنے کا حکم کسی کتاب میں تو نہیں آیا۔ ۔ ۔ ؟ ہو سکتا ہے کہ ہم رمضان میں عبادت صرف اس لیےکرتے ہوں کہ ہم اللہ کی نعمتوں سے فائدہ صرف رمضان میں اٹھاتے ہیں۔ ۔ ؟

ان تمام سوالات کے جوابات کا سوچ کر سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔ کہ ہمارے رحیم وکریم رب نے ہمیں کس چیز سے نہیں نوازا، ہم تو ۲۴ گھنٹے اسکی نعمتوں اور رحمتوں میں رہتے ہیں۔ ہم اگر چند لمحے اس فکر پر خرچ کرنے کی زحمت کریں، تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہمارے بدن کا ہر عضو ایسا ہیکہ جس کی عطا پرہم ساری زندگی شکر ادا کرنا چاہیں تو نہ کر سکیں۔ میں زیادہ دور نہیں جاتا صرف ایک ایسی نعمت کا تذکرہ کروں گا جس کی طرف ہم نے بہت کم توجہ کی ہو گی۔ وہ لعاب دہن کی نعمت ہے۔ جسے ہم اکژ نفرت سے پھینکتے ہیں۔ ذرا تصوّر کیجیے کہ ہم اگر اس نعمت سے محروم ہو جائیں تو ہم دنیا کے کسی ذائقے کا مزہ حاصل کرنے کے قابل نہ رہیں۔ اور ہمیں ہر لقمے کے ساتھ پانی بھی پینا پڑتا اسکو نگلنے کے لیئے، جسکی وجہ سے ہم اس چیز کے اصلی ذائقے سے لطف اندوز نہ ہو سکتے، اور نہ ہی ہم ہرچیز کو کھا سکتے۔ یہ اس اللہ ہی کی عطا ہے جس کی عبادت ہم اپنی مرضی سے کرتے ہیں، اور اسنے ہمیں بغیر کسی معاوضے کہ اپنی اتنی قیمتی نعمت سے نوزا ہے۔

اگر ہم فرصت کے لمحات میں قرآن کو اٹھانے کی زحمت کرنا گوارا کریں تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے رب نے ہمیں کیوں پیدا کیا۔ اس لئے کہ قراۤن میں ہماری تخلیق کا مقصد کچھ ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے:

(اورمیں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ س:۵۶۔ آیۃ:۵۱)

اب ہم نے عبادت کب تک کرنی ہے، اسکا بھی قرآن نے ہمیں واضح الفاظ میں بتایا ہے اسکے لیے کوئی مہینہ۔ دن یا رات مخصوص نہیں ہے (اگرچہ فضیلت ہے) کہ ہم صرف رمضان میں یا اسکے علاوہ جمعہ یا کسی اور خاص دن یا رات میں تو عبادت کریں لیکن باقی دنوں میں ہم غفلت کریں۔

قرآن میں اللہ نے اپنے محبوبﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

(آپ بندگی کیجیئےاپنے رب کی یہاں تک کہ آپکے پاس یقینی بات(موت)آجائے۔ س:۱۶، آیۃ۹۹)

جس معاملے میں پیارے نبیﷺ کو یہ ارشاد ہے تو اس میں ہم سستی کریں تو یہ کہاں کا انصاف ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم نے جس طرح رمضان میں عبادت کی اسی طرح غیر رمضان میں بھی عبادت کی کوشش کریں، جب تک سانسیں چل رہی ہیں کوشش یہ ہونی چاہیےکہ منعم ذات کی نا شکری نہ کریں، اور اس معاملے میں اللہ سے توفیق کی دعا بھی کریں۔ کہ اللہ تعالیٰ تمام امّت مسلمہ کو عبادات و دیگر اعمال صالحہ میں استقامت نصیب فرمائیں۔ ۤامین۔ ۔ ۔ !