1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. جھوٹ کی سواری

جھوٹ کی سواری

انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ انسان ہر دور میں اپنے حضر کو سفر میں تبدیل کرنے کے لیے کسی سواری کا انتخاب کرتا ہے۔ پھر دیکھا جائے تو اسلام میں سواری کے اعتبار سے گھوڑے اور اونٹ کا بہت بڑا مقام ہے، کہ ان کو جہاں سفر کے لئے استعمال کیا جاتا رہا، وہیں ان سے جنگ میں بھی بہت سے فوائد حاصل کئے گئے ہیں۔ اور عرب شعرا کی شاعری کی طرف ایک نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں بہت سے ایسے شعرا ملیں گے کے انہوں نے اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کی اعلی ٰ صفات بیان کرنے میں کتنے ہی اشعار کہے۔ اور اگر دور جدید کی بات کی جائے تو اس دور میں بہت سی آرام دہ اور تیز رفتار سواریاں ایجاد ہوچکی ہیں اور آنے والا زمانہ نہ جانے اور کیا کچھ لا سامنے کھڑا کرتا ہے اب اس کا انتظار ہے۔ لیکن یہ تو بات ہو رہی تھی انسان کی سواری کی لیکن انسان کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں سواری کا استعمال کرتی ہیں ان ہی میں سے ایک جھوٹ بھی ہے۔ کہ یہ بھی بہت بڑے سفر کرتا ہے اور کبھی اس سے واسطہ پڑ جائے تو یہ لوگوں کو بھی سفر کرواتا ہے۔ اور کبھی ایسےحالات پیدا کر دیتا ہے کے انسان اس پر اعتماد کر کے سفر ترک بھی کر دیتا ہے۔ اور روپ دھارنے میں بھی یہ کافی ماہر ہے کبھی اتنا بڑا ہو کر بھی چھوٹا سا لگتا ہے جب اسکا متکلم غیر سنجیدہ ہو۔ اور کبھی بہت چھوٹا ہو کر بھی بہت بڑا بن جاتا ہے جب اسکا متکلم معتمد انسان ہو۔ لیکن یاد رہ کہ ہوتا یہ جھوٹ ہی ہے وہ تو ہم نے اسکے کچھ درجے بنا لیے ہیں۔ اور کبھی یہ موجود ہوتا ہے لیکن نظر نہیں آتا اور یہ تب ہوتا ہے جب ہم اپنی عام بات چیت میں بچوں کو بہلانے کے لئے کچھ لے کر دینے کا کہتے ہیں لیکن اس بات کو پورا نہیں کرتے، اور کبھی بڑوں سے بات کرتے ہوئے بھی اسکی موجودگی ہمیں معلوم نہیں ہوتی اور یہ تب ہوتا ہے جب ہم عام طور پر کسی کام کے ہونے یا کرنے کے پانچ یا دس منٹ بتاتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ حقیقت اس جیسی نہیں۔ اور کبھی یہ موجود نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اسکی موجودگی کا ایک خوف سا سر پر طاری رہتا ہے اور یہ معاملہ تب ہوتا ہے جب کوئی دھوکے باز کوئی سچ بات بتا رہا ہو۔ اصل بات تو اسکی سواری کی ہو رہی تھی لیکن درمیان میں اسکے کچھ روپ بھی ذکر ہو گئے۔

اس کی سواری گھوڑا نہیں اور نہ ہی اس کی سواری اونٹ ہے۔ نہ تو اس کے پاس اتنی رقم ہوتی ہے کہ یہ جہاز پر سفر کرے اور نہ یہ اتنا غریب ہوتا ہے کہ بس (اگرچہ میٹرو ہی کیوں نہ ہو) پر سفر کرے۔ اور نہ ہی یہ متوسط درجے کا ہوتا ہے کہ گرین لائن پر سفر کرے۔ لیکن عجیب بات یہ ہےکہ اس کے باوجود یہ جہاز میں بھی ملے گا اور بس میں بھی ٹیکسی میں بھی اور ٹرک میں بھی۔ اس کی سواری ہماری زبان سے نکلنے والا ایک چھوٹا سا اور اگر میں اس طرح لکھوں کہ چھوٹا سا اور اکثر بے تکا اور جھوٹا سا جملہ ہوتا ہے تو شاید یہ غلط نہ ہوگا۔ کسی کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا" یہ جملہ تو اکثر لوگوں نے سنا ہو گا بس بالکل اسی طرح ہم اکثر لوگوں کے کندھوں پر اپنی زبان کی بندوق رکھتے ہیں اور چلاتے ہی جاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کس کے دامن کو پاک اور کس کو داغدار بنایا اور کس کو محب وطن اور کس کو غدار بنایا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سا ایسا جملہ ہے جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے کندھوں پر جھوٹ کی بندوق یا اس سے بھی ایک قدم آگے کہ توپ رکھ کر چلاتے ہیں؟ تو وہ جملہ امام غزالی ؒ نے احیاء العلوم میں آپﷺ سے اس طرح نقل کیا ہے: (بئس مطیَۃ الکذبِ زعموا) یعنی جھوٹ کی سب سے بری سواری یہ جملہ ہے کہ "لوگ کہتے ہیں" اب اس جملے کو ذہن میں رکھ کر اگر ہم اپنی روزمرہ کی گفتگو پر توجہ دیں تو ہمیں بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ کہ جھوٹ کی یہ سواری کتنی عام ہو چکی ہے۔ اور اس سے کتنے ہی فسادی فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے کسی بھی مخالف کے خلاف کوئی من گھڑت بات کہہ دیتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ ہم کسی کے خلاف کوئی بات کہیں اور اپنے آپ کو بدنامی سے بچانے کے لئے اس بات کے شروع یا آخر میں اس جملے کا اضافہ کر دیں کہ"لوگ کہتے ہیں" تو کیا اہل علم و دانش آپ کی اس بات پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں کتنی ہی بے بنیاد باتیں اس جملے کا سہارا لے کر ایک تن آور درخت کی طرح مضبوط ہو چکی ہیں۔ اگر ان باتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو بہت سے لوگ آپ کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے۔ اس طرح کی بے بنیاد باتوں سے جو فتنے برپا ہوتے ہیں وہ الگ ہیں۔ اور بعض حضرات نے جھوٹ کو اسکی سواری فراہم کرتے ہوئے دین کے کاموں میں بھی کچھ تجاوزات کیں ہیں۔ مثلا صفر کے مہینے کو نحوست کا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ اور کچھ اچھے بھلے سمجھدار لوگ بھی اس مہینے میں آپ کو کسی اہم کام کی ابتدا سے منع کریں گے۔ جب آپ اسکی تحقیق کریں گے ایسا کیوں ہے اسکی وجہ کیا ہے۔ تو آپکومعلوم ہو گا کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا، میں ساتھ ایک اور چیز کا اضافہ کروں گا کہ وہ بھی دم کٹا۔ کیونکہ اسلام کی تعلیمات میں اس چیز کی صراحتا نفی موجود ہے۔ اور یہ بات صرف جھوٹ کی سواری پر سوار ہو کر اتنی مشہور و معروف ہو چکی ہے۔ لہذا ہرفرد کی اپنی ذات تک یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بلا تحقیق کسی بات کو آگے نہ پھیلائے۔ اس طرح اسکی ذات ایک معتمد شخصیت بن جائے گی اور معاشرے کو اسکے وجود سے بہت فائدہ ہوگا۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں بے بنیاد باتوں کے پھلاؤ کا سبب بننے سے بچائے۔ (آمین)