1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. حج اور ایام حج

حج اور ایام حج

اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن حج ہے۔ جس کی فرضیت قرآن، حدیث اور اجماع امت سے بالکل اسی طرح ثابت ہے جیسا کہ نماز روزہ وغیرہ کی۔ اس لئے منکر حج کو اسلام اپنے دائرہ میں رہنے کا حق نہیں دیتا۔ لغوی اعتبار سے حج کا معنی ہے ارادہ اور قصد کرنا۔ جبکہ شریعت میں خاص وقت میں خاص طریقے سے ضروری عبادات اور مناسک کی ادائیگی کے لئے کعبۃ اللہ کا قصد کرنا، طواف کرنا اور میدان عرفات میں ٹھہرنا حج کہلاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، عرض کیا: پھر کون سا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل ہے؟ فرمایا کہ حج مبرور۔

حج مبرور کیا ہے؟ اس کے متعلق علماء کرام فرماتے ہیں کہ حج مبرور وہ حج ہے جس کے دوران انسان سے کسی قسم کے گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو۔ جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔ جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔ جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کا تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے۔ جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلہ میں دلچسپی دکھا ئے۔ حدیث مبارکہ میں حج مبرور کا بدلہ جنت کو قرار دیا گیا ہے۔

حج کرنے سے انسان کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں جیسا کہ ابن شِماسہ المہری سے روایت ہے کہ حضرت عمرو بن عاص (رضی اللہ عنہ) پر جب سکرات الموت کی کیفیت طاری تھی تو اس دوران ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے،۔ وہ کافی دیر تک روتے رہے، پھر انھوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف موڑ لیا۔ اس پر ان کے صاحبزادے نے چند سوالات کیے۔ پھر انھوں نے (اپنے اسلام قبول کرنے کی داستان سنائی) فرمایا: جب اللہ نے چاہا کہ میرا قلب نورِ ایمان سے منور ہو جائے ؛ تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضرہوا اورعرض کیا: آپ ﷺ اپنا داہنا دست مبارک پھیلائیں ؛ تاکہ میں بیعت کروں۔ آپ ﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلایا۔ تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمرو! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا: میری ایک شرط ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: آپ کی کیا شرط ہے؟ میں نے کہا: میری مغفرت کردی جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ؟ وَأَنَّ الْہِجْرَةَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا؟ وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ"؟ (مسلم شریف) ترجمہ: "(اے عمرو) کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام (قبول کرنا) پہلے (کے تمام گناہوں)کو مٹا دیتا ہے؟ ہجرت گزشتہ گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج پہلے(کے کیے ہوئے گناہوں)کو مٹا دیتا ہے "۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حج کو کمزور، بوڑھے اور عورت کا جہاد قرار دیا گیا ہے۔

حج کی تین اقسام ہیں، پہلی حج افرادہے، اس حج میں حاجی صرف حج کی ادائیگی کے لیے احرام باندھتا ہے، عمرہ نہیں کرتا، اور نہ ہی حاجی پر حج افراد میں قربانی واجب ہوتی ہے۔

دوسری قسم حج تمتع ہے، اس حج میں حاجی پہلے عمرہ کا احرام باندھتا ہے، پھر طواف اور سعی کے بعد حلق یا قصر کر کے اس سے فارغ ہو جاتا ہے، اور پھر حج کے ایام میں حج کا احرام باندھتا ہے۔ اس میں چونکہ حاجی ایک ہی سفر میں دونوں عبادتوں کو جمع کرنے سے مستفید ہوتا ہے، اسی وجہ سے اس حج کو حج تمتُّع اور حاجی کو متمتِّع کہا جاتا ہے، اس حج میں حاجی پر شکرانے کے طور پر قربانی بھی واجب ہوتی ہے، پاکستانی عازمین حج اکثر یہی حج ادا کرتے ہیں۔

تیسری قسم حج قِران ہے، اس حج میں حاجی ایک ہی سفر میں حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھتا ہے، پہلے عمرے کے ارکان ادا کرتا ہے، پھر عمرے کی سعی کرتا ہے، لیکن حاجی سعی کے بعد حلق یا قصر کر کے حلال نہیں ہوتا، بلکہ بدستور حالت احرام میں رہتا ہے، اور پھر اسی احرام سے ایام حج میں حج کے ارکان ادا کر کے حلق یا قصر کرنے کے بعد حلال ہو تا ہے۔ حج کی اس قسم میں بھی حاجی پر قربانی واجب ہوتی ہے، اس میں چونکہ ایک ہی احرام سے دونوں عبادتوں کو جمع کیا جاتا ہے اسی وجہ سے اسے حج قران کہا جاتا ہے، اور اس حج کے ادا کرنے والے کو قارِن کہا جاتا ہے۔

حج کے کل ایام پانچ ہیں 8 ذوالحجہ سے 12 ذوالحجہ تک۔ جن میں حج کے تمام فرائض و واجبات ادا کئے جاتے ہیں۔ فرائضِ حج میں احرام باندھنا، وقوفِ عرفات، طواف زیارت کرنا اوران تینوں فرائض کو مقررہ مقامات اور مقررہ اوقات میں ترتیب سے ادا کرنا ہے۔ جبکہ واجبات حج میں، مزدلفہ میں ٹھہرنا، جمرات کو کنکریاں مارنا، اگر حج قِران یا حج تمتع کی نیت کی ہے تو قربانی کرنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، سر کے بال منڈاونا یا کترانا، طواف وداع کرنا، طواف زیارت کے سات چکر پورے کرنا۔ واجبات میں سے کوئی واجب ترک کرنے کی صورت میں دم لازم آتا ہے۔

ذوالحجہ کا بابرکت مہینہ جہاں اپنی بابرکت ساعتوں سے حجاج کرام کو گھیر لیتا ہے وہیں جو حضرات اس سفرِباسعادت سے کسی وجہ سے محروم ہو جائیں وہ بھی اس کی برکات سے محروم نہیں رہتے، جیسا کہ موجودہ صورت حال ہمارے سامنے ہے کہ وبا کی وجہ سے کتنے ہی مسلمان اس فریضہ کی ادائیگی سے قاصر ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس ماہ مبارک کی بابرکت ساعات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس لئے چند اعمال ذکر کئے جاتے ہیں۔

خدا تعالی نے اپنے کلام سورۃ الفجر میں ذوالحجہ کے پہلے عشرے کی قسم کھائی ہے۔ جو ان ایام کی فضیلت پر شاہد ہے اور احادیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اللہ جل شانہ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ کے برابر زیادہ عظمت والے دن کوئی نہیں اور نہ کسی دنوں میں نیک عمل اتنا پسند ہے (جتنا ان دنوں میں) پس تم ان دنوں میں کثرت سے تسبیح (سبحان اللہ)، تکبیر (اللہ اکبر) اور تہلیل (لاالہ الااللہ) کیا کرو۔

یوم عرفہ کے روزے کے متعلق آپؐ نے فرمایا: "عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے"۔

اور عید کی رات کی فضیلت کے متعلق فرمایا: " جو شخص دونوں عیدوں کی رات (یعنی چاند رات) کو اللہ تعالیٰ سے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے عبادت کرے، اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے"۔

اس کے علاوہ ایام تشریق کے فضائل بھی عام ہیں۔ ایام تشریق کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف توجیہات ذکر کی گئی ہیں، لغوی معنی کے اعتبار سے لفظ تشریق، شروق سے نکلا ہے، جس کے معنی "طلوع ِآفتاب" کے آتے ہیں۔ تشریق مشرق کی جانب یا سورج کی جانب رخ کرنے یا کسی چیز کو دھوپ میں خشک کرنے کو بھی کہا جاتا ہے۔ اگر یہ تشریق اللحم سے ماخوذ ہوتو چونکہ ان ایام میں لوگ قربانی کا گوشت سکھاتے تھے، جس کی وجہ سے ان ایام کو ایام تشریق کہا جانے لگا، اور اگر "شروق الشمس " سے لیا جائے تو چونکہ عید کی نماز کے لیے سورج چڑھنے کا انتظار کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے یہ ایام، ایام تشریق کہلاتے ہیں۔

کلمات تکبیر تشریق کا پس منظر ہمیں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی بے مثال قربانی کی یاد دلاتاہے۔ جب خلیل اللہؑ اپنے لاڈلے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کرنے لگے، تو جبرئیل ؑ جنت سے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کے بدلے جانور لیے زمیں پر اترے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کے لیے بالکل تیار کھڑے ہیں۔ اس پر متنبہ کرنے کے لئے دور سے پکارا:اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ جب حضرت ابراہیمؑ کی نظر ان پر پڑی تو فرمایا: لا الہ الا اللہ وللہ اکبر۔ اور جب حضرت اسماعیلؑ کو فدیہ کے جانور کا علم ہوا تو انہوں نے پڑھا: اللہ اکبر، وللہ الحمد۔ اس طرح تکبیر تشریق کے کلمات مکمل ہوئے۔

ایام تشریق (9 ذوالحجہ کی فجر سے 13 ذوالحجہ کی عصر تک) میں ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز سےتکبیر تشریق (اﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ لَا اِلٰه اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَرُ وَ ﷲِ الْحَمْد(پڑھنا واجب ہے، البتہ مستورات یہ تکبیرات آہستہ آواز سے کہیں گی۔

یہ چند وہ اعمال ہیں جن پر بغیر کسی مکان و جہت کی تخصیص کے دنیا کے کسی بھی خطہ میں مقیم مسلمان باآسانی عمل پیرا ہو کر ان ایام کی برکت سمیٹ سکتا ہے۔