1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. حلقہ NA-15، اور نمائندوں کی منہ چھپائی کی رسم طویل

حلقہ NA-15، اور نمائندوں کی منہ چھپائی کی رسم طویل

ترکش ڈرامہ سیریل ارتغرل غازی نے جہاں اپنے ملک میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے وہیں سرحدیں پھلانگتا ہوا پاکستان میں بھی شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ پچھلے دنوں اس کا سین نظر سے گزرا ایک خیمہ کے اندر کچھ لوگ بیٹھے کسی معاملہ پر گفتگو کر رہے ہیں اور قریب ہی ایک چراغ ٹمٹما رہا ہے، پھر کیمرا مین ایک اور سین کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے جس میں دکھایا گیا کہ بہت ہی دشوار گزار راہوں سے کچھ بہادر گھوڑوں پر سوار کسی مقصد کی طرف روانہ ہیں۔ بس اس سین پر نظر پڑی ہی تھی کہ حلقہ NA-15 کے دیہی علاقوں نے دل و دماغ پر بسیرا کر لیا۔ کیونکہ کہ یہاں کے نمائندوں کی ڈھیر ساری مہربانیوں کی وجہ سے ان علاقوں میں اگر آپ کا جانا ہو، اور کچھ دن رہنا بھی پڑ جائے تو آپ یہاں کے بلند و بانگ پہاڑوں کے دل کش مناظر سے جہاں خود کو لطف اندوز ہونے سے روک نہیں سکیں گے وہیں کچھ خاص چیزیں یہاں کی ایسی ہیں جو شاید آپ بھلا دینا بھی چاہیں تو ممکن نہ ہو۔

ان میں سے ایک چیز یہ کہ ان مکینوں کے لئے ان کے نمائندوں کی بے مثال قربانیوں کی بدولت ان علاقوں کی شاندار اور رعب دار بجلی ہے۔ جس نے بہت ساری الیکٹرانک اشیاء کا تکبر خاک میں ملا رکھا ہے۔ ایک مغرور بلب ہی کی مثال لے لیجئے جو ان علاقوں میں ایک عاجز و مسکین چراغ کی طرح ٹمٹماتا نظر آتا ہے۔ پنکھے بجلی ہونے کے باجود چلنا بھول جاتے ہیں، پنکھا لگا ہے یا بند اگر آپ اس کے بہت قریب بھی ہوں تو اس کا اندازہ لگانا آپ کے لئے نہایت مشکل ہوگا، اس لئے کہ اس کے پروں کے گھومنے یا رکنے سے نہیں بلکہ اگر آپ اس کے اور قریب ہوں اور اپنے قوت سماعت کو اس طرف متوجہ کریں تو آپ کو "گوں گوں گوں! کی آواز بتا سکے گی کہ پنکھا لگا ہے یا بند۔

رہی بات اووَن کی تو وہ بجائے چیزوں کو گرم کرنے کے ٹھنڈا کرنے پر مجبور ہے اور فریج نے اوون کی تمام تر ذمہ داریاں اپنے کندھوں لے رکھی ہیں، جو یقیناً ان علاقوں کے نمائندوں کی امتیازی شان کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر یہاں کے مکینوں سے کوئی پوچھ بیٹھے "ارے بھائی بجلی ہے؟" تو یہ سوال ان پر بجلی بن کر گرے گا۔ سی ایس ایس کے کسی سوال کو دیکھ کر تو فوراً "ہاں" یا "ناں" میں جواب دیا جا سکتا ہے، لیکن مذکورہ سوال کا جواب اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ اس لئے کہ اگر بجلی ہے، تو اگلا سوال یہ ہوگا، پھر آپ کے پنکھے، بلب یا دیگر اشیاء کیوں اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں؟ یہ سوال الگ سے دل پر لگنے والی ایک چوٹ ہے۔ اور اگر جواب میں کہا جائے بجلی نہیں! تولوگ چھت پر چڑھ کر کسی دوردراز علاقے کو دیکھ کر عید کے چاند کی تلاش کی طرح انگلی سے اشارہ کرتے ہیں کہ وہ دیکھو وہ، نظر آیا؟ یہ کسی کے گھر سے بلب جلنے کی سی روشنی معلوم ہوتی ہے، جو اس بات پر شاہد ہے کہ بجلی موجود ہے۔ خلاصہ یہ کہ بجلی ہے یا نہیں اس بارے میں ایک مکمل تحقیق رپورٹ ہی آپ کو مطمئن کرسکتی ہے ورنہ کسی عام انسان کی بات پر آپ کا یقین کرنا مشکل ہوگا، نمائندوں کی بہت بہت مہربانیوں کی بدولت۔

اس کے بعد اگر بات ہو جائے ان علاقوں کی سڑکوں کی تو کیا کہنے ہیں جناب۔ اگر آپ اعلی سے اعلی لگژری گاڑی بھی ان راہوں پر لے آئیں تو آپ کو یوں لگے کا کہ آپ ارتغرل کے سپاہیوں کے کسی گھوڑے پر سوار کسی مقصد کی طرف روانہ ہیں، اور اگر آپ نے ارتغرل دیکھا ہے تو بعید نہیں کہ کچھ لمحوں تک آپ ان رستوں پر دوران سفر ارتغرل کی گھڑ سواری کا خیال ذہن سے جھٹک سکیں۔ گھوڑے تو شاید پھر کم اچھلیں یہاں تو کسی بھی گاڑی کی حیثیت ایک شاندار "اچھلو" سے کم نہیں ہو سکتی۔

ایک اور اہم بات کہ یہاں کی کچھ سڑکیں موسمی تبدیلی یا بارشوں کی وجہ سے ایسے مناظر نہیں پیش کر رہی، بلکہ کچھ لوگوں نے ہمیں بتایا یہاں رجوعیہ سے حویلیاں جاتے وقت رستے میں "نڑباغ" نامی جگہ سے دریا گزرتا ہے جسے لوگ دریائے دوڑ بھی کہتے ہیں۔ ایک رستہ دریائے دوڑ کے کنارے کے ساتھ ساتھ حویلیاں گاؤں تک جاتا ہے۔ اور یہ رستہ بہت ہی شاندار منظر پیش کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے بہت عرصہ پہلے یہاں کے نمائندوں نے الیکشن کی خاطر اس روڈ کا کام شروع کرایا تھا۔ اس کام سے پہلے وہ رستہ کچھ بہتر تھا، لیکن اس دکھلاوے کے کام نے اس روڈ کا ستیاناس کر دیا اور رہی بات نمائندوں کی تو وہ بھی پیچھے اپنا کوئی سراغ چھوڑے بغیر کامیابی سے کھسک گئے۔

ان سب مسائل کی وجہ دریافت کرنے پر لوگوں نے جو جواب دیا ان سب کا خلاصہ ان علاقوں کے نمائندوں کی منہ چھپائی کی رسم ِطویل ہے جو الیکشن کے موسم سے پہلے ختم نہیں ہوتی۔ البتہ یہا ں کے باسیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کے موسم میں ہر پتھر کے نیچے سے نمائندے اور ان کے حواری امڈتے نظر آتے ہیں۔ یہ اس حلقے کے چند علاقوں کی حالت ہے جہاں ان کے نمائندے ایک ہی پارٹی سے کئی برسوں سے منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں، لیکن اپنے انتخاب کا کوئی فائدہ عوام کو دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ اخلاقی طور پر اپنا عہدہ رکھنے کے اہل نہیں۔

اس کے علاوہ ناجانے کتنے ہی ایسے علاقے ہوں گے جہاں مذکورہ احوال یا اس سے بھی بدتر ہوں، لیکن میڈیا کی شہروں تک کی حدود نے یہاں کے نمائندوں کو کھل کر عوام کا درگت بنانے کی آزادی دے رکھی ہے، وہ ان علاقوں میں صرف "ووٹ" اور "عہدہ" کے حصول کا مقصد لے کر آتے اور مطلب کی تکمیل پر چلے جاتے ہیں۔ اگر میڈیا اپنی حدود میں وسعت پیدا کرے اور شہروں کے مسائل کی طرح دیہی علاقوں کے مسائل اور ان کے ذ مہ داران کا قدم بقدم تعاقب کرے، ان کی سیر و تفریح پر نظر رکھ کر ان سے کچھ کڑوے سوالات کرے، اور ان کے حلقوں میں ان کی روز مرہ کی زندگی کو منظر عام پر لایا جائے تو یقیناً ووٹ بینک کے متاثر ہونے کا خدشہ ان کو راہ راست پر لے آئے گا۔