1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. کیا یہ حقیقت نہیں؟

کیا یہ حقیقت نہیں؟

۳۱ اکتوبر کو پاکستان کی عدالت عظمی نے آسیہ ملعونہ کی رہائی کا فیصلہ سنایا لیکن اس فیصلے کے سننے والوں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اپنااحتجاج ریکارڈ کروا کر دنیا کو بتا دیا کہ ابھی ہم زندہ ہیں۔ وزارت عظمی سے بھی گلے شکوے رہے اور قاضی القضاۃ سے بھی۔ عالم اسلام نے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا جو بحیثیت مسلم ان پر فرض تھا۔ ان سنگین حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ شر پسندوں نے ملکی املاک کو نقصان بھی پہنچایا، اس کشیدگی کی حالت میں کچھ لوگوں نے دوسروں کے گریبان بھی ٹٹولے یہ ساری باتیں ہو گئی، گزر گئیں۔ بہر حال اس واقعہ کے علاوہ بھی ہمیں آئے دن کچھ ایسی ہی نہایت افسوسناک خبریں ملتی ہیں۔ ان کا ذمہ دار بظاہر کون ہے یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن بباطن آج ان کے ذمہ دارکون ہیں آج کا مضمون اس پر ہے۔
آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر اس طرح کے فیصلوں کا صدور یہ ایک الگ سنگین مسئلہ ہے، لیکن سوال یہ ہیکہ کہ غیروں میں اتنی جراءت کہاں سے آگئی کہ ہمارے آقاﷺ کی شان میں گستاخی کرنے لگیں؟ ہم کیوں اتنے بے بس ہو گئےاور اتنے کمزور کب سے ہوگئے؟ اور اس کی مثل کچھ اور سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔ اس کی اور کیا وجوہات ہوں وہ اپنی جگہ لیکن ایک وجہ ان میں سے یہ بھی ہے جس کی طرف ہمارے استاد محترم نے ہمیں متوجہ کیا۔ کہ کسی بھی طبقے کے سربراہ کے ماتحت لوگ جتنی اس کی پیروی کرتے ہیں اتنا ہی اس کا رعب و دبدبہ ان کے علاوہ دیگر لوگوں پر بڑھتا ہے۔ لوگ اگر اس کی طرف انگلی اٹھانے اور زباں درازی کرنے کا سوچیں تو اس سے پہلے دس بار اپنی عقل کے دروازے پر دستک دیتے ہیں کہ اس عمل کا رد عمل بھی ہو سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح آپؐ پوری دنیا کے انس و جن کے سربراہ ہیں اور باقی رہتی دنیا ان کی پیروکار ہے ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا ان کی بقا کا سبب ہے اور ان ہی کی وجہ سے اس دھرتی پر ان کا وجود موجود ہے، اگر وہ نہ ہوتے تو نہ جہاں ہوتا نہ یہ جہاں والے۔ لیکن آج بحیثیت ایک امتی ہماری جو حالت بن چکی ہے اس حالت نے غیروں کو قوی کر دیا، ان چیونٹیوں کے ساتھ بھی پر لگ گئے، ان بزدلوں کے اندر اتنی بہادری آگئی کہ ہمارے آقا کی شان میں بھی گستاخی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہیکہ ہم نے آقا ﷺ کی زندگی سے روگردانی کرلی ہے، ہم نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو ترک کر دیا، ہمیں کامیابی کے وہ رستے بھول گئے جن پر آقا مدنی ؐ ہمیں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے، رخصت ہوتے ہوئے بھی جن کے دل میں امت کا غم موج زن تھا اور پیغام چھوڑ گئے کہ کامیابی کے لئے قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھام لو۔ لیکن ہم نے کسی مجلس میں آپ ؐ کی سیرت و صورت کا بیان سن کر فلک شگاف نعرے تو لگائے لیکن جب عمل کی بات آئی تو ہم ڈگمگا گئے، اس لئے کہ ہمارا اندر کسی اور طرف مائل ہو چکا ہے، ہمیں اپنی کامیابی کسی اور سمت میں نظر آرہی ہے، ہم محبت کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔ اگر ہم محبت کا سچے دعویدار ہیں تو پھر آپؐ کی محبت کا تقاضی کیا صرف نعروں پر اکتفا کرنا ہے، ہر گز نہیں۔ وہ ہستی جس نے ہماری خاطر اتنی تکلیفیں برداشت کیں کہ ہم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے، لیکن ہم نے ان کے ساتھ کتنی وفاداری کی ہر انسان اگر اپنے گریبان میں جھانکے تو وہ خود بہتر اندازہ لگا لے گا۔ بروز محشر جب آپؐ کے سامنے حاضری ہوگی تو کس منہ سے آپؐ کا سامنا کریں گے۔ ذرا تصور کیجئے اگر بھری مجلس میں ہمیں کوئی عام انسان نظر انداز کر دے تو ہم کیا محسوس کرتے ہیں اس دن تو انبیا بھی ہوں گے اور اولیاء بھی اس عظیم مجلس میں اگر ہم عظیم ہستی کی شفاعت سے محروم کر دیئے گئے تو پھر کیا ہو گا۔ آج ہم نے غیروں کے طور طریقے اپنا لئے اور آپؐ کی سنت کو پس پشت ڈال دیا اور عزتوں کے متلاشی بھی رہے، لیکن قرآن کہتا ہیکہ "تمام عزتیں اللہ ہی کے لئے" اگر عزت چاہیے اور دنیا میں سرخرو ہونا ہے تو نبی ؐ کے رستے پر آنا پڑے گا۔ لیکن ہم تو یہ سمجھ رہے ہیں کے اس نام نہاد ماڈرن دور کا رکن بننے میں عزت ہے، اور اس کے رسم و رواج کو اپنانے پر بڑےفخر کا اظہار کیا جاتا ہے حالانکہ یہ رونےاور افسوس کا مقام ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ سنت ہی تو ہے اگر ترک کر دی کافر تو نہیں ہو جائیں گے ہم۔
برادرم! ہمارے آئڈیل آپ ؐ کی ذات ہونی چاہیے اور طریقہ صحابہ کا ہونا چاہیے تھا، لیکن ہماری راہیں کچھ جدا جدا سی لگتی ہیں۔ ہم اپنی حرکتوں کو بھی دیکھیں اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے اس قول کو بھی کہ "اگر آج کوئی صحابی اس دنیا میں آجائے تو ان حالات کو دیکھ کر کہے گا کہ اس دنیا میں کوئی مسلمان نہیں سب کافر ہیں ان میں ایمان کا ذرہ بھی نہیں اور اگر دنیا والے ان کو دیکھ لیں تو کہیں کہ وہ پاگل ہیں" یہ ان کے دور کی بات تھی آج ہم خود ہی سوچ لیں کہ ہم کہاں تک گر چکے ہیں۔
اپنے ان حالات پر نظر رکھتے ہوئے ہم اگر اپنی مغلوبیت پر نظر دوڑائیں اور پھر ایک کڑوا سوال اپنے آپ سے بھی کریں کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایسے حالات کے پیدا ہونے میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے؟ کہیں ایسے واقعات کا رونما ہونا ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے تو نہیں؟ اگر ہے تو اس کا حل کیا ہے؟ اس مرض کے علاج کے لئے اللہ نے مساجدو خانقاہیں عطا کی ہیں، تبلیغی مراکز ومدارس سے نوازا ہے، علماء جیسی عظیم ہستیاں موجود ہیں۔ کبھی ان بزرگوں کے در پے جا کر تو دیکھیں جواھرات ملیں گے، کامیابی کی طرف راہنمائی ہوگی تجربہ کیا جائے تو حقیقی تبدیلی نظر آئے گی، آج غیر ہم پر غالب ہیں کل وہ ہمارے قدموں میں پڑے ہوں گے۔ لیکن اگر ہم نے اس رستے کو اپنانے سے لاپرواہی کی تو پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اپنی تباہی و بربادی ہم نے اپنےہی ہاتھوں سے کما لی ہے۔ اگر اس تباہی سے بچنا ہے تو اس کا واحد راستہ اتباع سنت ہے جس کے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں کہ ہم ان حالات کا مقابلہ کرسکیں۔ حضرت امام مالکؒ کا قول ہیکہ سنت نبویؐ مثل کشتی نوحؑ کے ہے جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔ اب فیصلہ خود کر لیں غرق ہونا ہے یا نجات پانی ہے؟
اللہ سے دعا ہیکہ کہ ہمیں اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائیں۔