1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. میں مخلص ہوں،مگر؟

میں مخلص ہوں،مگر؟

کسی بھی معاشرے میں جو خوبی پائی جائے تو اھل معاشرہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی حد تک اس خوبی کو ضروراپنایا جائے۔ لیکن افراد میں اس خوبی کے اپنانے کے کچھ طبقاتی درجے بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس خوبی کو قولا و عملا اپناتے ہیں اور حقیقی معنوں میں یہ ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس خوبی یا صفت پر مکمل طور پر اترتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرا طبقہ بھی اسی معاشرے میں پایا جاتا ہے جو اس خوبی یا صفت کو صرف قول کی حد تک اپنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اور اس سے آگے عمل کی سیڑھی پر چڑھتے وقت اس کے پھسل جانے سے یہ معلوم ہوجاتا ہیکہ کہ ان کا تعلق کس طبقہ سے ہے۔ اور یہ لوگ آپ کو ان لوگوں کی صفوں میں بھی دکھائی دیں گے جو کسی خوبی کو قولا و عملا اپنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں بہت ساری خوبیوں میں سے ایک خوبی اخلاص ہے۔ اور آج کی یہ تحریر اسی کے متعلق ہے۔
اخلاص کاسادہ اور آسان سا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے ہر اچھے عمل میں خدا کی رضا کو مد نظر رکھیں۔ ہمیں کسی کی پرواہ نہ ہو۔ نہ کسی فرد کی طرف سے تعریف کی اور نہ مذمت کی۔ ہماری نظر اس اچھےکام سے خدا کی رضا کے علاوہ کسی دوسرے عہدے پر نہ ہو اور نہ ہی اس سے شہرت مقصود ہو۔ اس کی بہترین مثال ہمیں مل سکتی ہے اگر ہم اپنی تاریخ کو دیکھ لیں، اس لئے کہ تاریخ کی مثال گاڑی کے سائیڈ شیشوں کی طرح ہے کہ اگر انسان کی نظر ان شیشوں پر ہو تو وہ باآسانی اپنی گاڑی کو منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر انسان کی نظر تاریخ پر ہو تو وہ اس سے بہت ساری چیزیں حاصل کر کے اپنی زندگی کی گاڑی کو منزل تک پہنچا سکتاہے۔ کیوں کہ تاریخ کی بستی میں اس کو کامیاب لوگ بھی ملتے ہیں اور ناکام بھی اور ساتھ ہی ان کی کامیابی اور ناکامی کی وجہ بھی مل جاتی ہے۔ کیونکہ تاریخ ایک ایسی چیز ہے کہ وقتی طور پر کسی بھی بات کو اچھا یا برا سمجھا جا سکتا ہے لیکن تاریخ کا جب وہ حصہ بن جائے تو تاریخ اس کا سارا کچا چھٹا کھول کر سامنے رکھ دیتی ہے۔ اگر ہم اپنی تاریخ کہ وہ صفحات پلٹیں جن پر آج سے ۱۴ سو سال پہلے کی ہستیوں کی داستانیں درج ہیں تو ہمیں ان جگمگاتے ستاروں میں سے ایک ایسے ستارے کی داستان ملے گی کہ جس کے اخلاص پر عقیدہ بننے کا خدشہ تھا کہ اس کی وجہ سے اسلام کے مجاہد جنگ میں کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔ اور وہ جگمگاتا ستارہ حضرت خالد بن ولیدؓ ہیں، کہ ان کی شجاعت اور اخلاص نے مل کر کفار ومشرکین کو بڑے بڑے معرکوں میں شکست سے دوچار کیا جس سے اسلامی فتوحات دور دور تک پھیل گئیں۔ اور لوگوں نے تمام فتوحات کو خالد بن ولید ؓ کی طرف منسوب کرناشروع کیا۔ لیکن اسلام کا مزاج ابتداء ہی سے شخصیت پرستی سے منع کرتا رہا جو کہ لاشعوری طور پر شرک تھااسی بات کے پیش نظرحضرت عمر فاروق ؓ نے ان کو معزول کر دیا۔ اور ایک عام سپاہی کی طرح لڑنے کا اختیار دیا۔ اور ان کی جگہ حضرت عبیدہ بن الجراحؓ کو سپہ سلار مقرر کر دیا۔ ذرا تصور کیجئے کہ یہ عہدہ چیف آف آرمی سٹاف کا تھا، اور معزول کر کے سپاہی بنا دیا گیا۔ اگر آج ایسا ہوجائے تو ہماری توہین کی انتہا ہو جائے۔ کہ ہم اتنا بڑا عہدہ چھوڑ کر کسی اور کے تابع ہو جائیں ایسا نہیں ہو سکتا فورا اس سے استعفی دے دیں اور زبان کی کمان سےتیروں کو اندھا دھند برسانا شروع کر دیں۔ لیکن حضرت خالد بن ولید ؓ اپنی تلوار لئے ہوئے جا کر سپاہیوں کی صف میں کھڑے ہو گئے، اور زبان سے ایک جملہ بھی اس فیصلے کے بارے میں نہیں کہا۔ کیونکہ خالدؓ پہلے بھی خدا کے لئے لڑتا تھا خالدؓ اب بھی خدا کے لئے لڑے گا کیونکہ خالدؓ کو خدا چاہیئے۔ اور حضرت عبیدہ بن الجراحؓ کی ماتحتی میں پہلے سے بھی زیادہ مستعد رہے اور ان کو جنگ کے دوران مفید مشورے بھی دیتے رہے۔ یہ تھا اخلاص پھر اپنے اخلاص کو لیئے ہوئے جنگ کے میدانوں میں اپنی شہادت کو تلاش کرتے رہے لیکن خدا کو کچھ اور منظور تھا۔ رہتی دنیا کے لیئے بہت بڑا درس تھا کہ کسی کا انتظار موت کرتی ہے اور کوئی موت کو تلاش کرتا ہے، لیکن وقت سے پہلے کوئی جاتا نہیں اور وقت پورا ہونے پر کوئی ٹھرتا نہیں۔ اور ادھر شہادت کی موت کو غالبا ۱۲۵ معرکوں میں تلاش کرنے والی ہستی جب بستر مرگ پر تھی تو حسرت سے فرمایا کہ میں نے کئی جنگوں میں حصہ لیا اور کتنی ہی دفعہ اپنے آپ کو اتنے خطرے میں ڈالا کہ جان بچانا مشکل تھا لیکن شہادت کی تمنا پوری نہ ہو سکی۔ ان کے جسم پر کوئی جگہ ایسی نہیں جس پر تلوار تیر یا نیزے کا نشان نہ ہو لیکن پھر بھی دل کی چاہت دل میں ہی رہ گئی۔ اس حسرت و چاہت کو سن کر پاس بیٹھے لوگوں نے ایک جملہ کہا جس نے شہادت نہ ملنے کے راز سے پردہ اٹھایاکہ آپؓ تو سیف اللہ ہیں اور اگر آپ کو کسی کافر کے ہاتھ سے شہادت مل جاتی تو لوگ کہتے کہ خدا کے دشمن نے خدا کی تلوار کو توڑ ڈالا اور یہ کام ناممکن تھا۔ اور اس سے آپ کو تسلی ہوئی اور کہا کہ:دنیاکےبزدلوں کو میرا یہ پیغام سُنادینا کہ اگرموت میدان جنگ میں ہوتی تو خالد کبھی بستر پر نہ مرتا۔ کیونکہ خالد موت کے میدانوں میں موت کو تلاش کر چکا تھا لیکن موت اس وقت خود ان کی حفاظت پر مامور تھی۔
اسی امتیازی شان نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو ایک ایسا مخلص انسان ثابت کیا کہ جس کی نیت نہ کسی عہدے کی تھی نہ شہرت کی نہ تعریف کی پرواہ کی نہ مذمت کی۔ اس اخلاص کی عظیم مثال کو سامنے رکھتے ہوئےانسان کوئی کام کرنے میں اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ میں مخلص ہو کر اس کام کو سر انجام دوں گا تو اگر اس بات میں وہ سچا ہو تو وہ کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا۔ کیوں کہ اس کا مقصد صرف خدا کی رضا ہے چاہے جس طرح بھی ہو۔ اور اگر کوئی کہے کہ میں مخلص ہوں۔ ۔ ۔ مگر اس کی نظر شہرت عہدے یا تعریف اور عزت وغیرہ پر ہو تو ہ اخلاص نہیں وہ ایک نفسانی خواہش ہے جس کا پانا ممکن ہے لیکن اصلی درجہ و رتبہ تو خدا کے ہاں ہے جس سے وہ محروم رہ جاتا ہے۔