1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. احسن اقبال/
  4. ریکوڈک، وسائل سے بڑے مسائل، حل کیا ہے؟

ریکوڈک، وسائل سے بڑے مسائل، حل کیا ہے؟

ریکو ڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔ جس کے متعلق یہ بھی کہا، سنا جاتا ہے کہ ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر پوری دنیا میں موجود ذخائر کے پانچویں حصہ کے برابر ہیں۔ چاغی کو کثرت ذخائر کی بنا پر ماہرین ارضیات نے "معدنیات کے شوکیس" کے لقب سے نوازا ہے۔ آج ریکوڈک کیس کی بازگشت نے ہمیں ایک بار پھر اس جانب متوجہ کیا کہ اس فیصلہ سے ملکی معیشت ایک دفعہ پھر مشکلات کے چنگل میں پھنستی نظر آرہی ہے۔ جرمانے کی ایک بڑی رقم کی پاداش میں ٹی تھیان کاپر کمپنی نے پاکستانی اثاثہ جات کو منجمد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، لیکن دوسری طرف اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک بیان میں یہ کہا گیا کہ 16 دسمبر کو یہ فیصلہ ہمیں سنے بغیر سنا دیا گیا، اور پاکستان آئیندہ 7 جنوری 2021 کو ہونے والی سماعت میں دفاعی مؤقف اختیار کرے گا۔ یہ تو موجودہ اور آئندہ احوال کا قصہء مختصر ہے۔

حالات کے تناظر میں ماضی پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ کیس ہمارے گلے کیسے پڑا؟ اور ہم کب تک اپنے ذخائر سے فوائد کے حصول کی خاطر در دبدر پھرتے رہیں گے؟ یہ دونو ں باتیں آج جنبشِ قلم کا سبب بنی ہیں۔

ہوا کچھ یوں کہ سن 1993 میں بلوچستان حکومت نے اپنے معدنی وسائل سے فائدہ حاصل کرنے کا ارادہ کیا، اور چاغی میں موجود ذخائر کے حوالے سے بین الاقوامی کمپنی "بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز(BHP)" کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا جس کانام" چاغی ہلز ایکسپلوریشن" تھا، اس معاہدے کے تحت 25 فیصد منافع بلوچستان کو ملنا تھا، جبکہ 75 فیصد منافع کمپنی کو ملنا تھا، چنانچہ اس معاہدے کے بعد 1993 سے 1997 تک یہ کمپنی ان مقامات کی نشان دہی کرتی رہی جن میں کھدائی کی جانی تھی، اور کھدائی کیے جانے والے پورے علاقے کو ریکوڈک کمپلیکس کہا جانے لگا۔ بعد ازاں معاہدے کی رعایتی شقوں کے مطابق BHP نے "منکور" نامی ایک کمپنی قائم کر کےاپنے شیئرز اس کے حوالے کر دیے، اور پھر منکور نامی اس کمپنی نے اپنے شیئرز ٹی تھیان کوپر نامی کمپنی (TCC) کو فروخت کر دیے، جو کینیڈا اور چلی کی کمپنیوں کے مابین مشترکہ کاروبار کی ایک کمپنی ہے۔

اس معاہدے کے متعلق کچھ مقامی اور سیاسی حلقوں میں یہ باتیں اٹھنے لگیں کہ اس معاہدہ میں بلوچ عوام کے مفاد کو نظر انداز کیا گیا ہے، اسی تناظر میں بلوچستان ہائی کورٹ میں اس معاہدے کےخلاف پٹیشن دائر کی گئی، لیکن بلوچستان عدالت نے اسے مسترد کر دیا، بعد ازاں سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کی شنوائی ہوئی، اور معاہدے کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اب ٹی سی سی نے لائسنس کی خاطر پھر بلوچستان حکومت کی طرف رجوع کیا، تو بلوچستان حکومت نے کثیر معاشی فوائد کے تناظر میں یہ شرط لگائی کہ معدنیات کو ری فائن کرنے کے واسطے پاکستان سے باہر نہیں لے جایا جائے گا، اور ساتھ ساتھ بلوچستان حکومت کے حصہ میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ لیکن ان شرائط پر کوئی پیش رفت نا ہو سکی، نتیجتاً بلوچستان مائننگ رول 2002 کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے 2011 میں ٹی سی سی کو لائسنس نہیں دیا گیا۔ ٹی سی سی نے اس فیصلہ کے خلاف مزاحمت کی، اور سیکریٹری مائنز اینڈ منرلزحکومت بلوچستان کے ہاں اپیل بھی دائر کی، جسے رد کر دیا گیا۔

اس کے بعد ٹی سی سی نے اس معاملے کے متعلق بین الاقوامی فورم سے رجوع کیا گیا۔ جس میں پاکستان کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، جس کا اندازہ 12 جولائی 2019 کے فیصلے سے لگایا جا سکتا ہے، جس کے حکم امتناع کے لئے پاکستان نے (ICSID) سے رجوع کیا، اور ڈیڑھ ارب ڈالر غیر ملکی بینک میں رکھنا طے پایا تھا، جو مقررہ مدت میں جمع نہیں کیا سکا اور پھرعدالت کے حکم پر کارروائی شروع ہوئی، جس کا آج کل چرچا ہو رہا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ اس معاہدے کے دوران بھی ہمیں کچھ خاص حاصل نہ ہوسکا ایک رپورٹ کے مطابق 1993 سے 2011 تک اس معاہدے سے چند درجن ملازمتوں کے علاوہ کسی قسم کا کوئی بھی معاشی فائدہ بلوچستان حکومت نہ اٹھا سکی، اس کے علاوہ جو ہاتھ سے گیا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس کیس کی 250 سے زائد سماعتیں ہوئیں اور ایک روایت کے مطابق بلوچستان نے فیس کی مد میں ڈھائی سے تین ارب روپے کی ادائیگی کی ہے۔ یوں لینے کے دینے پڑ گئے۔

1993ء سے شروع ہونے والا قصہ آج 2020 میں بھی ہمیں سکھ کا سانس نہیں لینے دے رہا، اور یوں جو 27 سال بغیر کسی پیش رفت کے بیت گئے، وہ الگ ہیں۔ ہم کب تک یوں دربدر پھرتےرہیں گے؟ ہم ان ذخائر کے لئے غیروں کے کیوں محتاج ہیں؟ اس کی بڑی وجہ اس ٹیکنالوجی کی کمی ہے جس پر بڑی معاشی قوتیں قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ علم ہر تالے کی کنجی ہے۔ اور ہمیں اسی بات پر اس وقت توجہ دینے کی اشد ضرور ہے، ہمیں اپنے قابل لوگوں کو اس میدان میں اتارنا ہوگا، انہیں ان معدنی علوم و فنون سے واقف کرانا ہوگا، معدنی وسائل سے مالا مال پاک سر زمین میں ایک ایسے ادارے کا قیام ناگزیر ہے جس میں دنیا کے ماہرین ارضیات اپنی رہنمائی میں ایسے لوگ تیار کریں جو معدنیات پر مکمل دسترس رکھنے کے قابل ہوں، ہم نے ایٹمی قوت بننے کا خواب دیکھا، ہم بن گئے۔

اب اگر ہمت کر کے معدنیات کے ان ذخائر کے متعلق بھی سنجیدگی سے سوچنا شروع کریں تو بعید نہیں معدنی ذخائر کو غیروں کے بل بوتے پر چھوڑنے سے چھٹکارا مل جائے۔ یہ کام یقناً راتوں رات نہیں ہو سکتا، اس پر ایک عرصہ لگے گا۔ لیکن یہ ایک ایسا قیمتی عرصہ ہوگا جس کے بدلے میں آنے والی نسلوں کا مستقبل سنور جائے گا۔ جتنا بجٹ معاہدے توڑنے جوڑنے اور کیس لڑنے میں خرچ ہو رہا ہے یہی اگر اس علم پر خرچ کیا جاتا تو کیا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ خیر جو ہو گیا سو ہوگیا، آگے کے متعلق اس معاملے پر سنجیدہ توجہ کی ضررورت ہے، وہ بھی اخلاص نیت کے ساتھ۔