1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. بازی لے گئے کُتے

بازی لے گئے کُتے

آٹھویں کلاس میں تھا، سالانہ امتحانات کی تیاری زور و شور سے جاری تھی، امتحانات سے فارغ ہوکر نتائج کے آنے تک جو چند دن کی چھٹیاں ملیں اس دوران ایک جاننے والے زمیندار کے گھر گیا، ان کے ڈیرے پہ ایک چھوٹا سا کتے کا بچہ بندھا ہوا تھا، مجھے اس پہ بہت پیار آیا مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے وہ کتے کا بچہ اس کےمالک سے مانگ لیا، بس اب ہر وقت میں تھا اور وہ چھوٹا سا کتا، صبح شام اس کی سیوا میں لگا رہتا جہاں بھی جاتا وہ کتا میرے ساتھ جاتا، سائیکل چلاتا تو وہ سائیکل کی پیچھے والی سیٹ پہ بیٹھ جایا کرتا، میری اور اس کتے کی آپسی محبت دیکھ کر سب میرا مزاق بنایا کرتے تھے۔

گھر والے الگ سے تنگ آچکے تھے، ایک دن والدہ نے رات کو اسے ایک بوری میں ڈالا اور گھر سے دور کہیں چھوڑ کر آئیں، بس کچھ دیر بعد وہ کتا دوبارہ سے ہمارے گھر کے دروازے پہ آن موجود ہوا، والدہ کو شدید غصہ بھی آیا اور ترس بھی آیا انہوں نے سردی سے بچانے کے لئے اسے اپنے گھر دوبارہ رکھ لیا۔

پھر اس کتے نے ہمارے ساتھ وفا کی انتہاء کردی، ہم اسے کھانے کو کچھ دیتے نا دیتے لیکن پھربھی وہ ہمارے گھر کی حفاظت پوری ذمہ داری سے کیا کرتا، ہم گھر پہ موجود نا ہوتے تب بھی کوئی فکر نا ہوتی کیونکہ وہ ہروقت گھر کے اردگرد گھومتا پھرتا رہتا۔ میرے نانا کو گھر میں کتے پالنا بالکل پسند نا تھا، ایک دن ہمیں بغیر بتائے پھر اس کتے کو بوری میں ڈال کر شہر سے بہت دور چھوڑ آئے لیکن نانا کے گھر پہنچنے سے پہلے ہمارا کتا ہمارے گھر پہنچ چکا تھا۔ نانا جی نے یہ عمل کئی بار کیا مگر ہر بار وہ واپس آجاتا، ایک دفعہ سرکار کی طرف سے آوارہ کتوں کو زہر ڈالنے کی مہم چلائی گئی، اس مہم کا شکار ہمارا کتا بھی ناجانے کیسے ہوگیا، اس نے مرتے مرتے ہم سے اپنی وفا نبھا دی، جب اسے زہر کھلائی گئی تو ادھر ادھر نہیں بھاگا ہمارے گھر کے دروازے پہ آکر سو گیا اور پھر ہمیشہ کے لئے سو گیا،

آپ سب کو یہ باتیں پڑھتے ہوئے شاید عجیب لگ رہی ہوں کہ ایک کتے کی کہانی لکھنے کا کیا مقصد ہے کیونکہ ہم انسان ٹھہرے اشرف المخلوقات اور کتا ایک نجس جانور ہے بھلا ہم ایک نجس جانور پہ بات کرکے کیوں وقت برباد کریں، لیکن آگے پڑھئیے اور فیصلہ خود کیجئے:-

رات کے تین بجنے والے تھے مجھے نیند نہیں آرہی تھی، موبائل اٹھایا اور یوٹیوب کھول کر ایک انگریزی فلم دیکھنے لگا، سردیوں کی راتیں جتنی لمبی ہوتی ہیں اداس بھی ہوتی ہیں، باہر ہلکی ہلکی بارش برس رہی تھی دور کہیں مجھے کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دے رہی تھی، میں اس بات کو نظر انداز کردیا اور ہینڈ فری لگا کر فلم دیکھنے لگا، کچھ دیر بعد ہینڈ فری اتارے تو کتے کی آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی، میں کمرے سے باہر نکل کر چھت پہ گیا کہ دیکھوں آخر کیا ماجرا ہے اب کتے کی آواز کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لڑنے کی آوازیں آنے لگیں، کچھ دیر بعد خاموشی ہوئی تو میں نیچے آکر دوبارہ فلم دیکھنے لگا، گھر کے بالکل ساتھ مسجد ہے فجر کی اذان ہوئی اور میں فون بند کرکے سو گیا، صبح پتہ چلا کہ فلاں گھر میں رات چور گھسنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن کتا گھر کے دروازے کے باہر بیٹھا تھا اس نے چوروں کو گھر کے قریب نا آنے دیا۔ گھر کا مالک جان پہچان والا آدمی تھا اس سے سارے معاملے کی تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ ابھی دو دن پہلے میرا بیٹا یہ کتا کہیں سے پکڑ کر گھر لے آیا ہم اسے گھر کے اندر بھی داخل نہیں ہونے دیتے کسی کو یاد آئے تو اسے روٹی کے دوچار نوالے ڈال دیتا ہے لیکن یہ ہمارے گھر کے اردگرد ساری رات گھومتا رہتا ہے اسی کی وجہ سے ہم چوروں سے بچ گئے۔

ہم اشرف المخلوقات انسان جب ماں کے پیٹ میں خلق ہوتے ہیں تو ہمارا رب ہماری خوراک کا انتظام کردیتا ہے، ماں کے پیٹ سے قبر کی چاردیواری میں جاسونے تک اس رب العالمین نے ہمیں کبھی بھوکا نا سونے دیا، ہم نے ہرلمحہ اس کی نافرمانی کی اس نے کبھی نافرمانی کے بدلے ہمارے منہ سے نوالہ نا چھینا، ہم نے اس کے سامنے سر اپنی مرضی سے جھکایا مگر اس نے کبھی ہمارا سر کسی اور کے آگے جھکنے نا دیا، ہم سارا دن روپیہ پیسہ کمانے کے لئے بھاگتے رہے اس کی عبادت کا خیال نا کیا مگر اس نے کبھی ہمارا خیال رکھنا نا چھوڑا، ہم ساری ساری رات ناچ گانے شراب کباب میں مصروف رہے اس نے ہم پہ کبھی آسمان سے پتھر نا برسائے، رات کے تین بجے تک ہم نے سوشل میڈیا کے مزے لئے مگر وہ آسمانوں پہ بیٹھ کر ہمارا انتظار کرتا رہا، جب اس کی رحمت کی دکان کھلنے کا وقت آتا ہے ہم تب نرم بستروں پہ سوجاتے ہیں، وہ مالک ہوکر سوتا نہیں ہم اس کے بندے ہوکر اس سے پیٹھ پھیر کرسکون کی نیند لیتے ہیں۔

خود فیصلہ کیجئے ایک کتا جسے ہم روٹی کے چند ٹکڑے بھی اپنی مرضی سے ڈالتے ہیں وہ ہم سے کتنی وفاداری نبھاتا ہے کہ ساری ساری رات جاگتا ہے، سردی میں ہمارے دروازے پہ پڑا پہرا دیتا رہتا ہے اور ہم اشرف المخلوقات اپنے مالک سے کتنے وفادار ہیں جس کی ایک نعمت کا بدلہ بھی ہم نہیں چکا سکتے،

سانس کی ڈوری کب ٹوٹ جائے اس کا پتہ کسی کونہیں اس لئے ہمیں چاہیے کہ اپنے مالک کو منا لیں، اپنی نافرمانیوں کی معافی مانگ لیں، وہ تو اتنا رحیم ہے کہ ایک آنسو کے بدلے معاف کردیتا ہے۔

بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں۔۔

چل بُلھیا توں وی یار منالے

نئیں تے بازی لے گئے کُتے