1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. امام موسیٰ کاظمؑ

امام موسیٰ کاظمؑ

تیونس سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین ڈاکٹر تیجانی سماوی مسلکًا مالکی سنی تھے۔ مکہ مکرمہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کی اور وہابی مسلک سے متاثر ہوئے اور وہابی عقائد کا پرچار کرنے لگے۔ بیروت کے بحری سفر کے دوران ان کی ملاقات بغداد یونیورسٹی کے منعم نامی شیعہ استاد سے ہوئی۔ تیجانی سماوی نے ان سے کافی علمی بحث و مباحثہ کیا اور تشیّع مسلک پہ سنے سنائے الزامات کی بوچھاڑ کی۔ منعم نے انہیں حقیقی تشیع کو سمجھنے کے لئے عراق کے سفر کا مشورہ دیا۔ تیجانی سماوی منعم کے ساتھ عراق پہنچے اور کافی بزرگ علماء سے ملاقاتیں کیں۔

تیجانی سماوی اپنی کتاب "پھر میں ہدایت پاگیا" میں لکھتے ہیں کہ جب وہ بغداد پہنچے تو انہیں خوشی تھی کہ وہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رح کی مزار پہ بھی حاضری دیں گے۔ حضرت عبدالقادر جیلانی کی قبر پہ حاضری کی بعد منعم نے انہیں کاظمیہ یعنی کاظمین بھی جانے کا مشورہ دیا۔ جب تیجانی سماوی کاظمیہ پہنچے تو انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ وہ کس کی قبر پہ آئے ہیں۔ ساتھی کے بتانے پہ معلوم ہوا کہ یہ قبر پیغمبرِ اکرمؐ کی اولاد میں سے ایک برگزیدہ ترین ہستی امام موسیٰ کاظمؑ کی ہے۔ وہاں زائرین کے بلند آواز میں درود و سلام سن کر اور حرم میں روحانیت نے تیجانی سماوی کے دل پہ بہت اثر کیا اور جیسے جیسے وہ امام موسیٰ کاظمؑ کے بارے جانتے گئے وہ اپنے آپ میں شرمندہ ہونے لگے کہ ہم مسلمان کیوں اولادِ رسولؐ سے اس قدر بے خبر ہیں کہ حضرت عبدالقادر جیلانی رح کی فضیلت کو بیان کرتے ہیں مگر آئمہ اہل بیتؑ کے بارے جانتے تک نہیں۔ تیجانی سماوی نے عراق کے سفر کے بعد کتبِ تشیّع کا مطالعہ کیا اور مسلک تشیع قبول کرلیا۔ تیونس میں مقیم ہیں اور تعلیماتِ محمدؐ و آلِ محمدؑ کا پرچار کر رہے ہیں۔

تیجانی سماوی کا واقعہ لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم میں سے بیشتر مسلمان پیر فقیر اولیاء اللہ کا ذکر زور و شور اور انتہائی عقیدت و احترام سے کرتے ہیں مگر جب ان سے آلِ رسولؐ کے بارے سوال کیا جائے تو لاعلمی کا اظہا کرتے ہیں اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ اہل بیتؑ اطہار سے بغض رکھتے ہوں گے اصل بات یہ ہے کہ انہیں بچپن سے کسی نے بتایا ہی نہیں ان کے منبر سے جنت جہنم اور حوروں کے بیانات ہوتے ہیں۔ مسلکی اختلافات بیان کئیے جاتے ہیں مگر رسول اللہ ص کی اولاد اور ان کی تعلیمات کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نسل در نسل وہ اہل بیت اطہارؑ سے دور رہتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے ہمیں فضول، غیر ضروری اور مسلکی چٹکلوں کی بجائے آئمہ اہل بیتؑ کی زندگانیوں کو ڈسکس کرنا چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں میں عشقِ اہل بیتؑ پروان چڑھ سکے۔

امام موسیٰ کاظمؑ امام جعفر صادقؑ کے بیٹے ہیں اور امام جعفر صادقؑ امام محمد باقرؑ کے اور امام محمد باقرؑ بیٹے امام علی بن حسینؑ (سجادؑ، زین العابدین) کے اور امام علی بن حسینؑ والیِ کربلاء امام حسینؑ کے بیٹے ہیں۔

آپ ساتویں امامؑ کے درجہ پر فائز ہیں۔ آپ سات صفر 128 ہجری کو حج کے سفر سے واپسی پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مقامِ ابواء میں پیدا ہوئے۔ مقامِ ابواء آلِ رسولؐ کے لئے متبرک ترین مقام ہے کیوں کہ وہاں رسول اللہ ﷺ کی والدہ ماجدہ مدفن ہیں۔

امام موسی کاظمؑ کی والدہ کا نام جنابِ حمیدہ ہیں آپ کا تعلق اندلس سے تھا آپ کے بارے امام باقرؑ نے فرمایا کہ "یہ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں" جب امام موسیٰ کاظم کی ولادت ہوئی تو آپ نے دونوں ہاتھوں کو زمین پہ ٹیک کر آسمان کی طرف رُخ فرمایا اور زبان سے کلمہ شہادت کا ذکر بلند کیا۔ آپ کا اصل نام موسیٰ آپ کے والد جعفر صادقؑ نے رکھا۔ آپ کے مشہور القابات میں کاظم، عبدالصالح، نفس ذکیہ، امین اور باب الحوائج ہیں لیکن کاظم اس لئے مشہور ہوگیا کیوں کہ آپ برا سلوک کرنے والوں اور آپ کو ستانے والوں کے ساتھ بھی درگزر فرماتے ان پہ احسان کرتے اور غصہ کو ظاہر نہ ہونے دیتے تھے۔

ایک بار امامِ اہلِ سُنت ابوحنیفہ رح ایک سوال کا جواب جاننے کے لئے امام جعفر صادقؑ سے ملنے آئے تو امام صادقؑ مدینہ میں موجود نہ تھے۔ آپ کی ملاقات موسیٰ کاظم سے ہوئی تب موسیٰ کاظمؑ کی عمر پانچ سال تھی۔

ابو حنیفہ رح نے اپنا سوال پیش کیا کہ گناہ خدا سے صادر ہوتا ہے یا بندے سے؟

امام کاظمؑ نے جواب میں کہا گناہ یا تو خدا کی طرف سے صادر ہوتا ہے اور اس میں بندے کی کسی قسم کی کوئی دخالت نہیں ہے پس اس صورت میں بندے کی جانب سے اس میں کسی قسم کی دخالت نہ ہونے کی بنا پر خدا اسے مجازات نہیں کرے گا۔ یا اس گناہ میں خدا اور بنده دونوں شریک ہیں۔ اس صورت میں خدا انسان کی نسبت قوی تر ہے اور قوی کی موجودگی میں قوی کو حق حاصل نہیں کہ صرف اپنے ضعیف شریک کو سزا دے۔ یا گناہ بندے کی جانب سے اور خدا کا اس میں کسی قسم کا دخل نہیں ہے۔ اس صورت میں اگر خدا چاہے تو اسے سزا دے یا اسے بخش دے۔ خدا وہ ذات ہے جس سے ہر حال میں مدد لی جاتی ہے۔ ابو حنیفہ نے یہ جواب سن کر کہا میرے لئے یہ جواب کافی ہے اور امام جعفر صادقؑ کے گھر سے چلے گئے۔

امام موسیٰ کاظم بہت زیادہ عبادت گزارتھے۔ آپ کی عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ جب آپ عباسی خلفاء کی طرف سے قید کئیے جاتے تو خدا کا شکر ادا کرتے کہ اب خدا کی عبادت کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت میسر آسکے گا۔ آپ کی عبادات دیکھ کر قید خانے کے سپاہی بھی حیران ہوجاتے تھے۔ شیخ مفید لکھتے ہیں کہ آپؑ اپنے زمانے کی عابد ترین، فقیہ ترین، سخی ترین اور بزرگوار ترین شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ اہل سنت بھی امام موسیٰ کاظم کو اہل بیتِ رسولؐ میں سے ایک عظیم عبادت گزار اور دین شناس شخص سمجھ کر بے حد احترام کرتے ہیں۔ موسیٰ کاظمؑ کا ایک لقب باب الحوائج عند اللہ بھی ہے یعنی ایسا دروازہ جہاں سے خدا کے حضور حاجات پیش کی جائیں تو ضرور پوری ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی ایک بڑی تعداد آپ کی زیارت کے لئے بغداد جاتے ہیں۔