1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. اقبال بانو

اقبال بانو

بالی یعنی اقبال بانو، لاہور کی ہیرا منڈی میں گاتی اور ناچتی تھی، قدرت نے اسے آواز اور خوبصورت جسم کے ساتھ نوازا تھا، اس وقت لاہور کو بالی کا لاہور کہا جانے لگا، یہ بیسویں صدی کی ابتداء تھی، جب خیرپور کا چھٹا میر علی نواز تالپور لندن میں پڑھ رہا تھا، یہ والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، میر علی نواز کاوالد بیمار ہوا تو اس نے بیٹے کو واپس ہندوستان بلوا لیا، بیٹے کہ شادی کی خواہش ظاہر کی، بردکھائی کے لئے ہندوستان بھر سے امراء کے ساتھ ساتھ غیر ملکی تاجروں نے بھی اس تقریب میں بھرپور شرکت کی، میر علی نواز تالپور کے دادا میر فیض محمد آرکی ٹیکچر میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ میر صاحب نے خیرپور میں فیض محل کے ساتھ ساتھ کوٹ ڈیجی میں شیش محل اور وائیٹ پیلس بھی بنوائے تھے، مہمانوں کو ان محلوں میں ٹھہرادیا گیا، میر نے مہمانوں کی تفریح کے لیے حیدر آباد، لکھنؤ اور لاہور سے گانے اور ناچنے والیاں بلا رکھی تھیں، بالی بھی ان میں شامل تھی بالی نے جب گانا گایا تو میر علی نواز بالی پر دل ہار بیٹھے، تقریب اختتام پذیر ہوئی، علی نواز میر سے جب اس کی خواہش پوچھی گئی تو اس نے بالی سے شادی کا ارادہ ظاہر کیا، محل اور خاندان میں کہرام مچ گیا، اس سے پہلے میر خاندان میں کسی طوائف کا خون شامل نا تھا، میر علی نواز کے والد بہت ناراض ہوئے مگر اپنے بیٹے کی ضد کے سامنے زیادہ دیر نا ٹِک سکے، اور آخر رشتہ لے کر لاہور ہیرا منڈی پہنچ گئے، مگر بالی کی ماں نے یہ کہا کہ بالی ہماری کمائی کا ذریعہ ہے اگر یہ بیاہ دی تو ہم بھوکے مر جائیں گے اس لئے اگر آپ نے بالی کا رشتہ لینا ہے تو ہمارے نام جائیداد بھی کریں اور رہائش و ماہانہ وظائف کا بھی بندوبست کریں، علی نواز کے والد مان گئے اور شادی سے پہلے ہی بالی کے پورے خاندان کو خیر پور کے شیش محل میں شفٹ کردیا، چند دن بعد محل میں ایک تقریب تھی میر علی نواز نے خوب شراب پی جب مدہوش ہوگئے تو انہیں کمرے میں لے جایا گیا ساتھ ہی مخالف رشتہ داروں نے اس کے کمرے میں ایک لڑکی کو داخل کردیا یہ مناظر دیکھ کر بالی ناراض ہوکر واپس لاہور آگئی اور دوبارہ ناچنا گانا شروع کردیا، میر علی نواز یہ صدمہ برداشت نا کرسکے اور خیر پور چھوڑ کر لاہور آگئے۔

اب درویشی اختیار کرلی سارا دن گلیوں میں مست گھومتے، ایک رات کسی پروگرام میں بالی گا رہی تھی میر علی نواز بھی پہنچ گئے، وہاں گانا شروع کردیا لوگوں نے پاگل سمجھ کر بھگانے کی کوشش کی مگر بالی نے ان کو چھڑوا لیا اور رونے لگی اور واپس اپنے گھر لے آئی اور شادی پر بھی راضی ہوگئی، میر علی نواز کے والد کو پتہ چلا تو انہوں نے بھی بیٹے کی محبت میں شادی کی تیاریاں شروع کردیں، یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ ہیرا منڈی میں اتنے بڑے خاندان کے فرد کی بارات آئی تھی، میر علی نواز نے پوری ٹرین بک کی، ٹرین میں تمام شاہی زیورات، گھوڑے، ہاتھی، بندوقیں اور توپیں بھریں اور ریاست کے سارے معززین کے ساتھ بارات لے کر ہیرا منڈی لاہور پہنچ گئے یوں بالی کا نکاح ہوا اور وہ شاہی بارات کے ساتھ خیر پور پہنچ گئی۔ اب بالی نہیں اقبال بانو ہوچکی تھی، اقبال بانو پہلے فیض محل میں رہی پھر میر علی نواز نے اس کے لئے ایک الگ دلشاد منزل کے نام سے محل بنوایا یہ محل آج بھی خیر پور ریلوے اسٹیشن کے پاس موجود ہے، یہ چار بیڈ رومز پہ مشتمل ایک بڑا محل تھا، میر نے اپنی بیگم کے لئے ایک بڑی کشتی بھی بنوائی، جس پہ 75000 روپے خرچ ہوئے، آپ اندازہ لگائیے دلشاد محل مغربی ہندوستان کا سب سے مہنگا محل تھا جس پہ ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے اور میر نے بیوی کی محبت میں 75000 کی صرف کشتی بنوا ڈالی، یہ کشتی کچھ عرصہ پہلے تک تو مختلف انگریز گورنر، ذولفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے زیر استعمال بھی رہی، پھر محترمہ فریال تالپور جب نواب شاہ کی ناظم بنیں تو انہوں نے ایک میوزم بنوایا اور یہ کشتی بھی میوزیم میں رکھنے کے لئے ٹرالی پہ لاد کر لائی گئی یہ کشتی میوزم میں رکھنے سے پہلے ہی ٹرالی سے گر کر ٹوٹ گئی اور ضائع ہوگئی۔

اقبال بانو یعنی بالی اپنے شوہر کی زندگی میں ہی وفات پا گئی اور کچھ عرصہ دلشاد منزل کے عقب میں امانتاً مدفن رہیں، بالی کے بعد میر علی نواز تالپور ایک بار پھر درویش ہوگئے، سارا وقت بیوی کو یاد کرتے رہتے تھے، پھر اس دور کی ایک درویش صفت عورت سے عقیدت رکھنے لگے اور جب وہ خاتون فوت ہوئیں تو بالی کی خالی قبر میں اس خاتون کو دفنا دیا گیا جو آج تک وہیں دفن ہیں۔

آپ کو پتہ ہے وہ مشہورِ زمانہ طوائف اقبال بانو یعنی بالی کی وصیت کیا تھی؟ اس کی وصیت تھی کہ اس کے جسدِ خاکی کو کربلا کی سرزمین میں دفن کیا جائے، اور میر علی نواز نے اس کی وصیت کو پورا کیا، بالی کے مطابق کربلا کی مقدس زمین اس کی بخشش کا زریعہ بنے گی، بالی اور میر علی نواز کی محبت کے ساتھ ساتھ بالی کا کربلا کے ساتھ عشق بھی لازوال ہے، ایک طوائف ہو یا کوئی وقت کا ولی فقیہ، کوئی عالم دین ہو یا ولی اللہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ مرنے کے بعد اس کا حشر کیا ہوگا، وہ جنت میں جائے گا یا جہنم، مگر ہر انسان چاہے جتنا گنہگار ہو اسے اپنے رب پہ اتنا بھروسہ ضرور ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے اس کی کوئی چھوٹی سی نیکی اس کی بخشش کا ذریعہ بن جائے، جیسے بنی اسرائیل کی ایک فحاشہ عورت نے کتے کے بچے کو سردی سے بچایا اللہ نے اسے بخش دیا، اسی طرح ہم میں سے کوئی دوسرے کے لئے یہ ہرگز فیصلہ نا کرے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم،

یہ بھی ممکن ہے کسی طوائف کو کربلا والوں کی محبت بخشوا دے اور کسی بڑے عبادت گزار کو اس کا تکبر ایک لمحہ میں دوزخ کا ایندھن بنا ڈالے۔

بالی اور میر علی نواز تالپور کی لازوال محبت نے مجھے تو یہی درس دیا ہے کہ جتنے مرضی گنہگار ہوجائیں کسی نا کسی طرح سے آلِ رسولؐ سے تعلق ضرور رکھئیے کیونکہ وہ بڑے لجپال اور کریم ہیں۔