1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. حی علی خیر العمل

حی علی خیر العمل

کوفہ کے باہر جنگل میں ہاتھ، پاؤں سے معذور اور نابینا شخص پڑا رہتا تھا امام علیؑ روزانہ اس شخص کو کھانا کھلانے جایا کرتے تھے اور شہادت سے پہلے امامؑ نے جب اپنے بیٹوں کو یتیموں کا خاص خیال رکھنے کے بارے میں وصیت کی تو اس معذور شخص کو بھی باقاعدگی سےکھانا کھلانے کی تاکید کی، آپؑ کی شہادت کے بعد امام حسنؑ اسے کھانا کھلانے گئے تو چونکہ وہ شخص نابینا تھا تو اسے نا پتہ چلا کہ اسے آج کھانا کون کھلا رہاہے، اس نے بڑی اداسی سے شکوہ کیا کہ کل کیوں ناآئے جب کہ میں بھوکا تھا، تو امام حسنؑ نے بتایا کہ میں اس شخص کا بیٹا ہوں جو آپکو روزانہ کھانا کھلانے آیاکرتا تھا اور انکی شہادت ہوچکی ہے، اور وہ کوئی عام شخص نہیں بلکہ امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ تھے تو وہ شخص امام علیؑ کی شہادت کی خبر سن کر رو پڑا اور کہا اتنے سالوں سے وہ مجھے روزانہ کھانا کھلانے آیا کرتے تھے لیکن آج تک انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ خلیفہ الرسولﷺ اور امیر المومنین ہیں۔ غرباء و مساکین کے ساتھ محمدؑ وآل محمدؑ کی شفقت اور محبت کی سیکنڑوں مثالیں ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔

جہاں ہمارے حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں سے فرصت نہیں وہیں ہمارا امیر طبقہ بھی خود غرضی کی اتنہا کو چُھو رہا ہے۔ ایک ملازمہ کو کھانے کا نوالہ لینے کی وجہ سے قتل کر دینا ہمارے بے حِس معاشرے کی ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ تو ہم نے اس سے بڑے بڑے مظالم کے پہاڑ توڑتے دیکھا ہے۔ جب حکمران اپنی مال دولت اکھٹی کرنے میں لگے ہوں اور امیر طبقہ اپنی زندگی کی رنگینوں میں مگن ہو توپھر ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کا خیال رکھیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کل مہنگائی کی وجہ سے اپنا گھر چلانا انتہائی مشکل ہوچکا ہے اور آمدن سے زیادہ اخراجات ہو چکے ہیں تو اس طرح کسی اور کی مددکرنا ناممکن تو نہیں لیکن آسان بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر انسان کوشش کرے تو کسی حاجت مند کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے۔ ہم لوگ اکثر آپس میں کمیٹیاں ڈالتے ہیں اور پھر جو رقم آتی ہے اس سے اپنی کوئی ضرورت پوری کر لیتے ہیں اگر اسی طرز پہ ہر ایک شخص اپنے دوستوں سے مل کر، چاہے وہ سرکاری ملازم ہو یا پرائیوٹ نوکری کرنے والا، کوئی کاروباری ہو یا پھر بیرون ملک مقیم سب لوگ اگر آپس میں ملکر ہر ماہ بہت ہی چھوٹی سی رقم اکھٹی کریں اور پھر اس سے کسی ایک ضرورت مند کو گھر کا راشن لے کر دے دیں، یا پھر رقم اکھٹی ہونے کے بعد کسی ہسپتال کے پاس والے میڈیکل سٹور پہ کھڑے ہوجائیں اور اگر وہاں کوئی غریب شخص دوائی لینے آئے تو اسے اس رقم سے دوا خرید کر دے دی جائے، یا پھر اپنے محلہ میں کسی بیوہ خاتون کے گھرکا کوئی ایک خرچہ اپنے ذمہ لے لیا جائے۔ اگر آپ بہت زیادہ روحانی سکون چاہتے ہیں تو کبھی کسی غریب کے دروازہ پہ پورے ماہ کا راشن رات کے اندھیرے میں اپنا تعارف کروائے بغیر رکھ کر آئیں یقین کریں آپ کو اس سے پہلے ایسا کبھی سکون محسوس نا ہواہوگا۔

جہاں ہم کسی کی مدد کرتے ہیں وہاں ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ جب ہم کسی کی مسلسل مدد کرنا شروع کر دیتے ہیں تو وہ شخص پھر کام کاج کرنا چھوڑ دیتا ہے کیونکہ اسے تسلی ہوتی ہے کہ ہر ماہ فلاں جگہ سے اتنی رقم آجانی ہے اس لئے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں۔ میں اور میرے چند فیس بک دوست کافی عرصہ سے ایسے ہی کچھ افراد کی ماہانہ مدد کیا کرتے تھے لیکن ہوا یہ کہ جن کی مدد کرتے وہ پہلے کچھ نا کچھ کام کاج بھی کیا کرتے تھے لیکن جیسے ہی انکی امداد شروع ہوئی تو وہ بہت سست ہوگئے اور کام کرنا چھوڑ گئے، تو میرے اس عزیز دوست نے مشورہ دیا کہ بجائے ہم ہر ماہ ایسے افراد کی امداد کریں کیوں نا انکو کوئی ایسا کاروبار بنا کر دےدیا جائے جس سے وہ آئیندہ کسی کے سامنے ہاتھ بھی نا پھیلایں اور انکا گھر بھی چلتا رہے اور وہ ناکارہ ہوکر گھر بھی نا بیٹھیں۔ پھر ہم نے چند افراد کو انکی صلاحیت کے مطابق کاروبار بنا کر دیا، ایک خاتون کو گھر میں خواتین کے کپڑے کی چھوٹی سی دکان بنا دی، ایک بیوہ کوچھوٹا سا بیوٹی پارلر بنا کر دیا، ایک لڑکے کو پاپ کارن کا ٹھیہ لگوا کردیا، ایک کو مردانہ کٹ پیس کپڑوں کا سٹال لگوا دیا اور ان تمام کاموں پہ انوسٹمنٹ ہم سب دوستوں نے کر دی۔ اب یہ حال ہے کہ وہ خواتین جو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتی تھیں اب اپنے پاؤں پہ کھڑی ہورہی ہیں، اور وہ افراد جو ہر ایک سے امداد کی اپیل کرتے تھے اب خود کا کام چلا رہے ہیں۔

یہاں یہ باتیں بتانے کا ہرگز مقصد ریاکاری نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہےکہ آپ لوگ بھی ایسے افراد جو آپ کے اردگرد ہیں اور ضرورت مند بھی ہیں اور کسی کام کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں تو بجائے انکی ہر ماہ مدد کریں بلکہ انکو چھوٹا موٹا کاروبار بنا کر دیں تاکہ مستقل بنیاد پہ انکا روزگار بن جائے اور وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کے شرمسارناہوں۔ کسی کی ماہانہ مدد کرکے آپ اسکو وقتی فائدہ دے سکتے ہیں لیکن اسکو روزگار بنا کردینے سے ایک تو اس کا مستقبل اچھا ہوجائے گا اور دوسرا معاشرے میں غربت کم ہونا شروع ہوجائے گی۔ البتہ ضعیف اور معذور لوگ جو کام کرنے کی سکت نہں رکھتے انکے لئے ماہانہ کی بنیاد پہ کچھ نا کچھ مدد کرتے رہنا چاہیے۔

نماز، روزہ، حج تو ہم اپنے لئے کرتے ہیں اصل خیر العمل تو یہ ہے کہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی آسانیاں پیدا کی جائیں۔ آئیے مل کر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس خیر العمل کو سرانجام دیں.