1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. مسئلے کا حل یہ بھی ہے!

مسئلے کا حل یہ بھی ہے!

ایک پرانے جاننے والے صاحب سے ملاقات ہوئی ان سے کاروباری حالات پوچھے تو انہوں نے کہا بھئی میں ایک سال پہلے کارخانہ بند کر چکا ہوں میں نے تعجب سے پوچھا کہ وہ کیوں اور اب کیا کر رہے ہیں انہوں نے جواب دیا کہ میں نے کارخانہ لگایا اور اس میں کام کے لئے بہترین کاریگر رکھے انکو انکی منہ مانگی تنخواہ دی، رہائش دی، ان کے ہر دکھ سکھ میں کام آیا مگر انہوں نے ہمیشہ آرڈر وقت پہ تیار نا کیا، نخرے دکھانا شروع کر دئیے کبھی وقت پہ نہیں آتے تھے، بنا بتائے چھٹیاں کرلیتے، آرڈر وقت پہ ڈلیور نا ہونے کی وجہ مجھے نقصان ہونا شروع ہوگیا، اور میں مقروض ہوتا گیا آخر تنگ آکر کارخانہ بند کردیا، اب چائینہ جاتا ہوں مرضی کا مال تیار کرواتا ہوں، آرڈر ٹائم پہ مل جاتا ہے اب اچھا خاصہ منافع کما رہا ہوں۔

مجھے یہ ساری باتیں سن کر نہایت افسوس ہوا کہ کیونکہ اس میں میرے ملک کا ہی نقصان ہورہا ہے، ایسے کئی کاروباری لوگ ہیں جو کاریگروں کے رویوں سے تنگ آکر کاروبار بند کر چکے ہیں اور اب چین سے درآمد کرکے فروخت کر رہے ہیں، اور اب کاریگر حضرات چنگ چی رکشہ یا پھر فروٹ کی ریڑھی لگا کر گزارہ کر رہے ہیں۔

ان تمام مسائل کا حل یہ تو نہیں ہے کہ ہم کارخانے بند کرکے درآمد شروع کردیں، پاکستان میں کارخانے اور فیکٹریوں میں کاریگر افراد زیادہ تر ان پڑھ یا بہت کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو والدین پڑھائی نا کرنے کی وجہ سے یا پھر غربت کی وجہ سے کارخانوں میں کام سیکھنے پہ لگا دیتے ہیں۔ ایسے افراد بہت غیر اخلاق اور بدتمیز ہوا کرتے ہیں جو کام میں مہارت آنے کے بعد کارخانے کے مالک یا سپروائزر کو آنکھیں دکھانے لگتے ہیں اور بات بات پہ ہڑتال کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ فیکٹری، کارخانہ مالکان کو چاہیے کہ ایسے افراد کو نوکری سے نکالنے کی بجائے ان کی اخلاقی تربیت کریں، ان سے پیار و محبت سے پیش آئیں۔ ایک فیکٹری کے مالک نے اپنے مزدوروں کی تربیت کے لئے ایک مولانا صاحب رکھے جو صبح شام قرآن و حدیث سے ملازمین کی تربیت کیا کرتے تھے۔ مولانا صاحب جب آخری پارے کی تفسیر پہ پہنچے تو جب بات آخرت اور روز حساب پہ آئی تو ایک سپروائزر فیکٹری کے مالک کے پاس گیا اور پوچھا یہ جو قاری صاحب پڑھا رہے ہیں کیا یہ سچ ہے تو مالک نے کہا ہاں بھئی قرآن کریم ہے تو سو فیصد سچ ہی ہے تو اس سپروائزر نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ پھر میں نے آپکی بہت چوریاں کی ہیں مجھے معاف کردیں۔

ایک اور بات بھی کاروباری ناکامی کی وجہ ہے وہ یہ کہ فیکٹری مالکان بھی کچھ کم زیادتیاں نہیں کرتے، ملازمین کو تنخواہیں وقت پہ نہیں دیتے کام زیادہ کروانے کے باوجود اوور ٹائم کے پیسےنہیں دیتے، ملازمین کی بہتر رہائش اور علاج معالجے کا خیال نہیں کرتے جس سے تنگ آکر پھر مزدور فیکٹری میں کام دل سے نہیں کرتے اور مالک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس ملک کو صنعتی ترقی کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ دلبرداشتہ ہونا چھوڑیں۔ اپنے لوگوں سے بات کریں ان کی تربیت کریں۔ ان کوبتائیں کہ ہم سب نے مل کر اس ملک کو بحرانوں سے نکالنا ہے اور اپنی زندگیوں میں خوشحالی لانا ہے۔ انشاءاللہ تابناک مستقبل ہمارا منتظر ہے۔