1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. مزدورِ عرب

مزدورِ عرب

دنیا میں مزدور کے ساتھ جتنی زیادتی عرب ممالک میں کی جاتی ہے شاید ہی کسی اور جگہ پہ ہو، ہزاروں پاکستانی، انڈین اور بنگالی مزدوروں کی بدولت ہی آج عرب ممالک میں دنیا کی بڑی بڑی کنسٹرکشن کمپنیز کروڑوں ڈالر کما رہی ہیں، سعودی عرب کی چند مشہور کنسٹرکشن کمپنیز سستے ویزے دے کر ہزاروں مزدوروں کو بھرتی کرکے پھر ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتی ہیں، ایک چھوٹے سے کنٹینر میں چھ ساتھ افراد کو بھیڑ بکریوں کی دھونس دیا جاتا ہے، صبح صبح گاڑیاں آتی ہیں ان مزدوروں کو بسوں میں بھر کر صحراوں میں لے جاتی ہیں دن بھر پچاس درجہ حرارت کی گرمی پہ کام کروایا جاتا ہے شام کو واپس آتے ہی مزدور اپنے اپنے کپڑے دھونے اور غسل کرنے کے لئے ایک واش رومز کے باہر لمبی قطار میں انتظار کرتے ہیں اس کے بعد اپنا کھانا بنانے کی فکر لگ جاتی ہے ہندو، عیسائی اور مسلمانوں کے مشترکہ کچن اور برتنوں سے اٹھتی بدبو ناقابل برداشت ہوتی ہے نا چاہتے ہوئے بھی کھانا بنا کر کھانا ہی پڑتا ہے، مزدور یہ تمام تکالیف پورا ماہ اس آس پہ برداشت کرلیتا ہے کہ مہینے کے آخر پہ تنخواہ ملے گی اور وہ اپنے بیوی بچوں کو پیسے بھیج سکے گا، لیکن پھر ہوتا یہ ہے کہ مہینے کے آخر پہ مزدور کو صرف جیب خرچ کے لئے پانچ سو ریال تھما دیا جاتا ہے باقی تنخواہ تین تین ماہ کے بعد ہی جا کر ملتی ہے، اس دوران اگر کوئی مزدور بیمار ہوجائے تو تھرڈ کلاس انشورنس کے باعث علاج بھی ایسا کیا جاتا ہے کہ پینا ڈول اور ایک پین کلر انجیکشن لگا کر فارغ کردیا جاتا یے، یہ تو تھا کمپنی کے مزدور کا حال اب سنئیے آزاد ویزہ پہ گئے بدقسمت انسان کی حالت۔

آزاد ویزہ کمپنی ویزہ سے کئی گنا مہنگا ہوتا ہے اور خیر سے پاکستان میں بیٹھے ٹریول ایجنٹ خوب کھال ادھیڑتے ہیں، اللہ اللہ کرکے جب غریب مزدور آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب سجائے سعودی عرب کے کسی ائیر پورٹ پہ پہنچتا ہے تو سب سے بڑا مسئلہ زبان کا نا آنا ہوتا ہے اور پھر ائیرپورٹ عملہ کا اخلاق بھی سبحان اللہ، آواز آتی ہے پہلی دفعہ آنے والے ایک طرف ہوجائیں اور پھر ایک لمبی قطار میں بیگ کندھوں پہ لٹکائے پاسپورٹ ہاتھوں میں اٹھائے سامنے ڈیسک پہ بیٹھے محکمہ جوازات کے ملازم کے چہرہ پہ نگاہیں جمائے رکھتے ہیں محکمہ جوازات کا اہلکار مرضی سے فنگر پرنٹ لگواتا ہے اور پھر دس منٹ موبائل پہ چیٹ کرتا ہے، اس اذیت ناک ماحول سے نکلنے کے بعد مزدور کو ریسیو کرنے کے لئے آئے رشتہ دار یا دوست ملتے ہیں اب ان کے ناز نخرے بھی مزدور نے ہی اٹھانے ہوتے ہیں چونکہ ان لوگوں نے ویزہ لے کر دیا ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں یہ غریب اب زندگی بھر ان کا احسان نہیں چکا سکتا حالانکہ ویزہ کی قیمت میں یہ رشتہ دار ہزار، دو ہزار کا چونا لگا چکے ہوتے ہیں، اگلا عمل اقامہ بنوانے کا ہوتا ہے پھر یہ غریب مزدور کفیل کے ہتھے چڑھ جاتا ہے کئی بار کفیل دو دو بار اقامہ کے پیسے لے کر ہڑپ کر جاتا ہے پھر جب اقامہ کے متعلق پوچھا جائے تو بُکریٰ بُکریٰ یعنی روزانہ صبح ہوجائےگا کا کہہ کر پھر دو دو دن فون نہیں اٹھاتا، کئی ہفتے انتظار کے بعد جب اقامہ بنتا ہے تو اگلہ مرحلہ کام کی تلاش ہے. عرب ممالک میں آپ کی جان سے زیادہ اقامہ کارڈ زیادہ قیمتی سمجھا جاتا ہے کیونکہ بغیر اقامہ کے باہر نکلے اور دوران چیینگ شاید آپ کو ملک سے ہی باہر نکال دیا جائے، کام اگر اچھا مل گیا تو کفیل کے منہ میں پانی آنے لگتا ہے اور وہ منتھلی جسے کفالت کہتے ہیں بڑھا دیتا ہے اور اگر آپ اسے منتھلی اس کی مرضی کی نہیں دیں گے وہ آپ کا حروب لگا دے گا یعنی وہ گورنمنٹ کو اطلاع کرے گا کہ اس کا عامل بھاگ گیا اور ہزاروں ریال بھی آپ پہ ڈال دے گا حروب لگنے کے بعد آپ نا اپنے ملک آسکتے ہیں نا ہی کوئی کام کرسکتے ہیں نا آزادی سے باہر گھوم پھر سکتے ہیں اور جس دن پکڑے گئے سیدھا جیل جائیں گے پولیس کفیل کو اطلاع کرے گی اس کا جی چاہے گا تو وہ آپکو چھڑوانے آئے گا ورنہ سالوں آپ کو جیل میں سڑنا ہوگا اور پھر کسی دن ملک کے بادشاہ کو رحم آگیا تو آپ کو آزادی مل سکتی ہے۔

سچ یہ ہے کہ کمپنی کا ملازم ہو یا آزاد ویزہ والا سب کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جاتا ہے، خود کا اسلام کے ٹھیکے دار سمجھنے والے یہ عرب دراصل انسانیت سے بہت دور ہیں، چالیس سال ان کی خدمت کرنے کے بعد بھی آپ وہاں خارجی ہی کہلوائیں گے، آپ کو نیشلنٹی ملنا تو دور کی بات آپ کو انسان ہی سمجھ لیا جائے تو ان کا بہت بڑا احسان ہوگا، ان بے چاروں کو پردیس کا دکھ الگ، اپنی فیملی کی جدائی الگ سے ستاتی ہے اور ان کے ساتھ ہونے والا سلوک مزید ان کو دکھی کردیتا ہے۔

یوم مزدور پہ ان سب پردیسی مزدوروں کے لئے ڈھیر ساری دعائیں پروردگار ان کو اپنے وطن پہ رزق نصیب کرے اور ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔