1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (3)

متولیِ کعبہ (3)

میں عرب کلچر کو بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں، عربوں کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے بچوں اور جوان لڑکوں کو بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے کا عادی بناتے ہیں، کوئی بھی خاندانی اجتماع ہو وہاں لڑکوں کی شرکت لازمی بنائی جاتی ہے اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو اپنے بزرگوں سے تعارف رہتا ہے، اور معاشرتی معاملات کی بھی سمجھ بوجھ آنے لگتی ہے اور عربوں میں یہ ایک خوبصورت بات ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کا بہت احترام کرتے ہیں محفل میں جب کوئی بزرگ آتا ہے تو سب اس کی پیشانی پہ بوسہ دیتے ہیں اور یہ روایات آج سے نہیں بنو ہاشم کے وقت سے چلی آرہی ہیں۔

عبدالمطلب جب اپنے چچا کے ساتھ مدینہ سے مکہ آئے تو آپ کی عمر سترہ سال تھی، آپ کے چچا نے آپ کی عادات و خصائل دیکھ کر محسوس کیا کہ آپ ہوبہو اپنے باپ ہاشم جیسے ہیں، آپ کے بچپن سے ہی انداز سرداروں والے تھے، حالانکہ عربوں میں چالیس سال والے مرد کو ہی مدبر سمجھا جاتا تھا اور کسی بھی شعبہ میں رکنیت چالیس سالہ مرد کو ہی دی جاتی تھی، مکہ پاک کے انتظامی امور میں بھی صرف بڑی عمر کے لوگوں کو شامل کیا جاتا تھا لیکن عبدالمطلب کو دوراندیشی، اندازِ بیاں اور پراعتماد ہونے کی وجہ سے ہر اجتماع میں لازمی بٹھایا جاتا تھا، عبدالمطلب اپنے ننھیال اور ددھیال کی طرف سے تجارت کے ساتھ منسلک تھے آپ کی والدہ بھی ایک بڑی کاروباری شخصیت تھیں اور والد بھی اپنے وقت کے ملک التجار کہلاتے تھے اس لئے عبدالمطلب کے اندر ایک منجھے ہوئے تاجر کی صلاحیت موجود تھیں، جنابِ ہاشم نے اپنی اولاد کے لئے کافی جائیداد ورثے میں چھوڑی تھی اس لئے آپ کے بھائی مطلب نے اپنے بھتیجے عبدالمطلب کے جوان ہوتے ہی اس کی وراثت منتقل کردی، یوں جناب عبدالمطلب نے اپنے کاروبار کی ابتداء اپنے ہی مال سے کی، آپ اپنے والد کی طرح مکہ سے شام جانے لگے لیکن بعد میں آپ نے یمن کی طرف بھی سفر کیا اور یمن کے سرسبز و شاداب علاقہ جات سے تجارت شروع کردی اور جب آپ کی عمر 43 سال تک پہنچی تو پہلی بار یمن کی منڈی میں خضاب دیکھا اور کسی نے بتایا کہ اس سے آپ کے سفید بال کالے ہوجائیں گے چونکہ آپ کے بال بچپن سے ہی سفید تھے تو آپ جوانی میں ہی بوڑھے نظر آتے تھے، آپ یمن سے اپنی داڑھی کو خضاب کرکے جب مکہ آئے تو لوگ آپ کو پہچان ہی نہ پائے اور آپ تیس سالہ نوجوان نظر آنے لگے۔

جنابِ عبدالمطلب کا دستر خوان بہت وسیع و عریض تھا، آپ کے دستر خوان سے پرندوں اور پہاڑوں پہ رہنے والے درندوں تک کو غذا پہنچائی جاتی تھی اس بنا پر آپ کو قوم کی طرف سے مطعم الطائر اور فیاض کے القابات دئیے گئے۔ جب آپ 24 سال کہ عمر کو پہنچے تو آپ کے چچا مطلب نے آپ کی شادی سمراء بنت جندب کے ساتھ بڑی دھوم دھام سے کردی، بعض جگہ پہ آپ کی زوجہ کا نام صفیہ بھی بتایا جاتا ہے، اس زوجہ سے آپ کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حارث رکھا گیا، حارث نے اپنے والد کا ہر مقام پہ بھرپور ساتھ دیا، جب رسول اللہ ص نے نبوت کا اعلان کیا تو اسی حارث کی اولاد نے اسلام قبول کیا اور پھر اپنے چچا زاد بھائی محمد رسول اللہ ص کا ہر مقام پر ساتھ دیا آپؐ کی محافظت کی اور ہر معرکہ میں پیش پیش رہے، حضرت عبدالمطلب کی اس بیوی سے حارث کے علاوہ کوئی اولاد پیدا نہ ہوسکی اور آپ نے اپنی اسی ایک بیوی پر اکتفاء کیا مگر زمزم کے جھگڑے پر حرب بن امیہ نے آپ کو بےاولاد ہونے کا طعنہ دیا عرب میں کثرتِ اولاد کو مادی اور افرادی قوت سمجھا جاتا تھا جس وجہ سے یہ لوگ بہت زیادہ بیویاں اور کنیزیں رکھتے تھے، بے اولادی کا یہ طعنہ سن کر عبدالمطلب نے اللہ سے اولاد کی نذر مانی جو قبول ہوئی یوں آپ نے مزید شادیاں کیں، اللہ نے آپ کو کثیر اولاد عطاء کی یوں آپ کو مستجاب الدعوات پکارا جانے لگا۔

آپ نے دوسری شادی بنی مخزوم میں فاطمہ بنت عمر سے کی جن کے بطن سے تین لڑکے ابوطالب، زبیر اور عبداللہ پیدا ہوِئے، پانچ بیٹیاں برہ، ام الحکیم البیضاء، عاتکہ امیمہ اور ارویٰ پیدا ہوئیں، تیسری شادی آپ نے بنی زہرہ میں ہالہ بنت اہیب سے کی، ان کے بطن سے حمزہ، مقوم اور حجل پیدا ہوئے، اور بیٹیوں میں صفیہ ہالہ اور نبی پاکؐ کی والدہ سیدہ آمنہؑ چچا زاد بہنیں تھیں، یوں ہالہ آپؐ کی دادی کے ساتھ ساتھ خالہ بھی تھیں۔

جاری۔۔