1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (4)

متولیِ کعبہ (4)

حضرت عبدالمطلب کے چچا جنابِ مطلب تجارتی سفر پر ایک دفعہ یمن گئے تو موسم شدید سرد تھا جس کی وجہ سے بیمار پڑ گئے اور رومان نامی بستی میں قیام کیا طبقات ابن سعد میں اس بستی کا نام قروان لکھا ہے، وہیں جناب مطلب نے وفات پائی، ان کی وفات پہ کسی نے مرثیہ پڑھا کہ حجاج چھلکتے اور لبریز پیالوں کے پینے کے بعد مطلب کے مرجانے سے پیاسے رہ گئے۔ جناب مطلب نے زندگی کے 23 سال کعبہ کی تولیت کے فرائض سرانجام دئیے اور حاجیوں کو پانی پلایا اور کھانا کھلایا۔

جنابِ مطلب کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے بھتیجے جنابِ عبدالمطلب کو کعبہ کے سقایہ(حاجیوں کو پانی پلانا) رفادہ (حاجیوں کو کھانا کھلانا) کے فرائض سونپ دئیے گئے گو کہ اس وقت امیہ اور اس کے رفقاء نے خوب مخالفت کی اور حضرت عبدالمطلب کو کعبہ کا متولی ماننے سے انکار کیا مگر اکثریت قریش حضرت عبدالمطلب کے حق میں کھڑے ہوگئے اس وجہ سے امیہ وقتی طور پہ خاموش ہوگیا اور امیہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے حرب بن امیہ نے جناب عبدالمطلب کی ہر میدان میں مخالفت کی اور آپ کو کعبہ کی تولیت سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کی مگر ہر بار ناکام رہا، ایک دفعہ یہ معاملہ شدت اختیار کرگیا تو بات لڑائی تک آن پہنچی لیکن جناب عبدالمطلب انتہائی نرم طبیعت کے مالک تھے اور جنگ و جدل سے بیزاری اختیار کرتے تھے آپ نے ایک ثالث کو درمیان میں لاکر یہ معاملہ حل کیا، اس کے بعد حرب بن امیہ سے اپنا رویہ بھی نہیں بدلہ بلکہ تمام معاملات میں اسے اپنے ساتھ رکھا ہر اجتماع میں اسے ساتھ لے کر جاتے تھے اور اسے ہر مشورہ میں رکھتے تھے مگر حرب نے اپنی اور اپنے باپ کی شکست کا غصہ ہمیشہ اپنے دل میں رکھا اور ہر مقام پر بدلہ لینے کی کوشش کی۔

جناب عبدالمطلب جب کعبہ شریف کے متولی بنے تو کعبہ کے تمام انتظامی امور پر نظر ثانی کی اور ہر کام کا الگ سے عہدہ بنایا اور اس کو ذمہ دار فرد کے حوالے کیا، آپ سے پہلے حج کے موقع پر کعبہ کو کبھی غسل نہیں جاتا تھا سب سے پہلے آپ نے اس رسم کو شروع کیا جو آج تک جاری ہے، قریش سے پہلے مکہ قصیٰ کے زیر انتظام تھا اس نے تمام عہدے اپنے پاس رکھے ہوئے تھے اور حاجیوں کے لئے کوئی سہولت قائم نہیں کی تھی، حضرت عبدالمطلب نے مکہ شہر اور کعبہ شریف کی خوب صفائی ستھرائی کا خیال رکھا،

تمام عہدوں میں دو اہم ترین امور سقایہ اور رفادہ کو اپنے لئے وقف کیا، مکہ میں سقایہ کو بہت اہمیت حاصل تھی، دور دراز سے آئے حاجیوں کو پانی پلانے والے کو حجاج بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اس دور میں مکہ کے اندر پانی کی شدید قلت رہتی تھی، حضرت عبدالمطلب بڑی جانفشانی اور شدید مشکلات سہہ کر مکہ سے دور کنووں سے پانی جمع کرتے اور اونٹوں کی کھالوں سے بنے حوض میں جمع کردیتے تھے، حضرت ہاشم نے اپنے دور میں شعب ابی طالب کے قریب ایک نیا کنواں بھی کھدوایا تھا مگر اس کا پانی گرمیوں میں خشک ہوجاتا تھا اور مکہ کے اردگرد کنووں کا پانی حجاج کے جم غفیر اور جانوروں کے لئے کم پڑجاتا تھا، امیہ نے بھی الطویٰ نامی کنواں کھود رکھا تھا لیکن اس سے حجاج کے لئے ایک گھونٹ پانی نہیں دیا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ پانی کی قلت ہو اور عبدالمطلب کے لئے پریشانی کا باعث بنے۔

حاجیوں کو پانی پلانے کے ساتھ ساتھ رفادہ یعنی حجاج کو کھانا کھلانا بھی پانی پلانے جیسا اہم ترین کام تھا، ہاشم یہ تمام تر اخراجات اپنی جیب سے پورے کیا کرتے تھے اور کسی سے امداد نہ لیتے تھے، حضرت عبدالمطلب نےرفادہ کے نظام کو بہتر بنایا، کعبہ کے تمام تر امور کے فیصلے مجلس مشاورت میں طے پاتے تھے اس سے پہلے مختلف قبیلوں کے سرداروں تک پیغام پہنچانا پڑتا تھا، عبدالمطلب نے پہلی بار منادی کا سسٹم متعارف کروایا، کوئی دعوت ہوتی یا کسی کو سزاء کے طور پہ برادری سے خارج کرنا ہوتا، اہم مشورہ ہوتا یا کوئی ایمرجنسی میٹنگ ہوتی تو نقیب پورے مکہ میں ڈھنڈورا پیٹ کر تمام قبائل کو مطلع کیا کرتا تھا،

حضرت عبدالمطلب کا جب کوئی ذاتی معاملہ ہوتا تو اس کا فیصلہ دارلامارہ کے ارکان سے نہ کرواتے بلکہ قریش سے باہر کے قبیلہ کے معزز شخص کو ثالث مقرر کیا کرتے تھے اور یہی آپ کی منصف مزاجی کا ثبوت ہے۔ آپ حاجیوں کے لئے کئی سو اونٹ ذبح کرواتے اس طرح دوران حج کوئی بھی حاجی کھانے پینے سے محروم نہ رہتا تھا۔

آپ حج پہ آئے ہوئے ان لوگوں میں لباس بھی تقسیم کرتے جن کے پاس پہننے کو کپڑے نہ ہوتے تھے بعد میں اسی لباس نے احرام کی شکل اختیار کر لی۔

جاری ہے