1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (7)

متولیِ کعبہ (7)

زم زم دریافت ہونے کے بعد قریش نے جب دیکھا کہ عبدالمطلب کا خواب سچاہوا اور حرمِ کعبہ کی حدود میں صاف شفاف اور ٹھنڈا پانی نکل آیا، اب انہیں دور دراز سے پانی جمع نہیں کرنا پڑے گا تو انہوں نے حضرت عبدالمطلب کے قریب آکر خوب خوشامدی انداز اپنایا اور زم زم پر اپنا حق جتانے لگے، عبدالمطلب ان کی اس روش کو بخوبی جانتے تھے آپ نے اسی وقت سختی سے منع کردیا اور کہا اس پہ صرف میرا حق ہے، جب میں یہ کنواں کھود رہا تھا تب تم سب میرا مذاق بناتے رہے اور مجھے طعنے دیتے رہے اب جب پانی دریافت ہوگیا تو سب لوگ اس کے مالک بن رہے ہو، تم لوگ جانتے ہو حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری میری ہے اور حج کے موقع پر کتنی مشکلات کو جھیل کر دور دراز کنووں سے پانی جمع کرتا ہوں اور اسے چمڑے کے تالاب میں ڈال دیتا ہوں، تم لوگ اپنے کنویں سے ایک گھونٹ پانی نہیں دیتے۔

جب قریش نے دیکھا کہ عبدالمطلب زم زم میں باقی قریش کو حصہ دار نہیں بنا رہے تو انہوں نے سخت زبان استعمال کی اور حرب بن امیہ آگے بڑھ کر کہنے لگا اے عبدالمطلب تم کس بات پہ ناز کرتے ہو جب کہ تمہارا صرف ایک بیٹا ہے اور تم ہمارے مقابلے میں کمزور ہو، یہ سن کر عبدالمطلب نے کہا اگر تم لوگ اس اہل ہوتے کہ زم زم تمہیں دیا جاتا تو تم میں سے کسی کو خواب میں اللہ نے زم زم کا اشارہ کیوں نا دیا؟ تم لوگ میرے ایک بیٹے کا مجھے طعنہ دیتے ہو مجھے اپنے اس رب پر یقین ہے جس نے اپنے گھر کی ذمہ داری مجھے سونپی جس نے مجھے چھپے ہوئے زم زم کا راز بتایا وہی میرا حامی و ناصر ہو گا۔ آج میں سب قریش کے سامنے منت مانتا ہوں کہ اگر اللہ مجھے دس بیٹے دے گا اور سب میری آنکھوں کے سامنے زندہ رہیں گے تو ان دس بیٹوں میں سے ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کروں گا۔

آپ کی اس پرجوش تقریر کو سن کر بنو ہاشم بھی آپ کے حق میں بول پڑے، قریب تھا کہ بنو ہاشم اور قریش کے ہاتھ تلواروں کے دستوں پر آتے اور خون ریزی ہوتی آپ نے آگے بڑھ کر سب کو خاموش کروایا اور کہا آپس میں مت لڑو ہم یہ فیصلہ کسی ثالث سے کروا لیتے ہیں، اور قریش بھی اس شرط پہ مانے کہ وہ زم زم کی وراثت کا فیصلہ اپنی پسند کے ثالث سے کروائیں گے، عبدالمطلب نے ان کی یہ شرط قبول کرلی۔

چند ہی دن بعد قریش کا تجارتی قافلہ شام کے لئے تیار ہوا تو فیصلہ ہوا کہ شام کے بالائی علاقہ "معان" کے ایک کاہن سے فیصلہ کروایا جائے گا، ہر قبیلہ سے بیس بیس آدمیوں کا جانا طے ہوا، حضرت عبدالمطلب بھی اپنے بیس آدمی لے کر روانہ ہوئے قریش کی طرف سے بھی بیس لوگ تھے اور حرب بن امیہ اپنے الگ بیس لوگ لے کر نکل پڑا، یہ راستہ بہت کھٹن تھا ہر طرف پہاڑ چٹیل میدان اور صحرا تھے، ایک جگہ پر جناب عبدالمطلب نے پڑاو کیا تو آپ اور آپ کے ساتھیوں کے پاس پانی ختم ہوگیا، آپ کے ساتھی پیاس سے نڈھال ہوگئے، آپ نے قریش سے ساتھیوں کے لئے پانی مانگا جو کہ قریش نے صاف انکار کردیااور کہا ہم تم لوگوں کے ساتھ یہاں مرنے نہیں آئے، حرب بن امیہ نے ایک بار پھر آپ کا خوب مذاق اڑایا۔

جناب عبدالمطلب کے ساتھی سخت مایوس ہوکر بیٹھ گئے اور کہا کہ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے یہیں موت کا انتظار کرتے ہیں مگر جناب عبدالمطلب نے کہا ہرگز نہیں ہم آگے بڑھیں گے یقیناً قریب ہی اللہ ہمیں کسی آبادی میں پہنچا دے اور ہم پانی حاصل کرسکیں، یہ کہہ کر آپ اٹھے اور اپنے اونٹ پر سوار ہوگئے اور باقی ساتھی بھی اٹھ کھڑے ہوئے، جیسے ہی حضرت عبدالمطلب کا اونٹ اٹھا اس کے پیٹ کے نیچے اللہ نے زمین سے پانی جاری کردیا اور پانی دیکھ کر آپ نیچےاترے خود پانی پیا اور ساتھیوں کو بھی پلایا، آپ کو پانی پیتا دیکھ کر قریش آپ کی جانب بھاگے اور دیکھ کر حیران رہ گئے کہ زمین سے صاف و شفاف پانی کا چشمہ ابل رہا تھا، آپ نے قریش کو مخاطب کرکے کہ جس رب نے مجھے مکہ میں چھپا ہوا زم زم عطاء کیا اسی نے مجھے اس چٹیل میدان میں پانی کا چشمہ دے دیا، لو تم بھی پیو، جانوروں کو پلاو اور سفر کے لئے مشکیزے بھر لو۔

قریش شرمندہ ہوکر پانی بھرنے لگے، حرب بن امیہ یہ سارا واقعہ دیکھ کر مزید سیخ پا ہوگیا، حضرت عبدالمطلب نے قریش کو آگے چلنے کا کہا تاکہ کاہن سے زم زم کی وراثت کا فیصلہ کروایا جاسکے مگر قریش نے آگے چلنے سے انکار کردیا اور کہا اے ہاشم کے بیٹے تیرے خدا نے ہمیں تمہارے مقابلے میں شکست دے دی، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زم زم کا حقیقی وارث تم اور تمہاری اولاد ہی یے۔

اس طرح زم زم کا کنواں کی وراثت عبدالمطلب اور اولادِ عبدالمطلب کے نام ہوئی، چونکہ آپ ایک نرم مزاج اور سخی دل انسان تھے آپ نے اہل مکہ کو زم زم پینے کی عام اجازت دے دی یوں حج کے علاوہ بھی اہلیانِ مکہ اس مقدس پانی سے سیراب ہوتے تھے۔

جاری ہے۔۔