1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. سکونِ قلب

سکونِ قلب

میں آٹھویں کلاس میں تھا تو میرے پاس سائیکل نہیں تھی جبکہ میرے کچھ ہم جماعت نئی نویلی چمکتی دمکتی سائیکل پہ سکول آتے تھے، اس دور میں سہراب کی سائیکل جس کے پاس ہوتی وہ خود کو امیر سمجھا کرتا تھا اور پھر جس کے پاس چائینہ کی ڈینمو والی سائیکل ہوتی وہ خود کو بادشاہ سمجھتا تھا، اس وقت میں دعا کیا کرتا تھا کہ خدایا مجھے بھی سائیکل عطا کر میں بھی دوستوں سے ملنے اپنی سائیکل پہ جایا کروں۔

اللہ نے یہ دعا میٹرک کے امتحانات پاس کرنے کے بعد سنی، والد صاحب نے سرگودھا نیلامی سے نو سو روپے میں ایک پرانی سائیکل خرید کر دی، خستہ حال تھی مگر میرے لئے زیرو میٹر تھی، چند ہی دن بعد اس سائیکل سے جی بھر گیا اور خیال آیا کہ میرے پاس نئی سائیکل ہونی چاہیے اور والدین سے ضد کرکے نئی سائیکل لی لیکن چند ماہ بعد دیکھا کہ میرے دوست تو موٹر سائیکل پہ کالج آتے ہیں اور میں بس کی چھت پہ بیٹھ کر یا بس کے پیچھے لٹک کر۔

آخر خدا مجھے موٹر سائیکل کیوں نہیں دیتا؟ یہ سوچ مجھے بہت بے سکون کرتی تھی، رشتہ داروں اور محلہ داروں کی موٹر سائیکل دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرا کرتا تھا، اگر کوئی جاننے والا ہمارے گھر آتا تو امی سے کہلوا کر موٹر سائیکل کی چابی لیتا اور باہر گلی میں پہلے گئیر میں فل ریس دے کر بھگاتا کیوں کہ مجھے کافی عرصہ بعد پتہ چلا کہ موٹر سائیکل کے چار گئیر ہوتے ہیں، ایف اے کے بعد پرائیویٹ نوکری شروع کی اور قسطوں پہ سپر ایشیاء کی موٹر سائیکل خریدی۔

جس شام موٹر سائیکل گھر آئی اس رات خوشی سے سو نہیں پایا صبح ہوتے ہی اسے کپڑا لے کر چمکانے لگا اور ایک دلہن کی طرح اسے گھونگھٹ میں چھپا کر رکھا کرتا تھا، چند ماہ بعد خیال آیا یہ تو سی ڈی 70 ہے میرا قد لمبا ہے لیکن موٹر سائیکل چھوٹی ہے کیوں ناں ہنڈا 125 لوں مگر، وہ مہنگا بہت تھا، لیکن ہر وقت بے چین رہنے لگا آخر امی کے عمرہ والے پیسے امی سے ادھار لئے پہلے والی موٹر سائیکل بیچی اور سیکنڈ ہینڈ 125 خریدی۔

بس وہ بھی دن یادگار دن تھا سارا دن شہر کی سڑکوں پہ ایک فلم کے ہیرو کی طرح گھومتا رہا، اور پٹھان سے پلاسٹک کی سستی سی کالی رنگ کی عینک بھی خرید کر لگا لی، لیکن ہنڈا 125 کا جنون بھی چند ماہ رہا کیوں کہ اب مجھے گاڑی کا شوق ستانے لگا تھا اور ایک دن پیسے جمع کر کے سوزوکی ایف ایکس لی اور وہ بھی بس نام کی گاڑی تھی، اس میں بیٹھتے ہوئے شرم محسوس کرنے لگا کیوں کہ بیچ راہ میں وہ بند ہو جایا کرتی تھی، پھر ایک لاکھ بیس کی لے کر ساٹھ ہزار میں فروخت کر کے پھر سے موٹر سائیکل خرید لی۔

نئی گاڑی کی خواہش کم از کم پاکستان میں پوری ہوتے نظر نہیں آرہی تھی، تلاشِ رزق اور خواہشات کی تکمیل کے لئے پردیس جانے کا فیصلہ کیا، پردیس جتنا دور سے حسین اور پرسکون نظر آتا تھا اس سے زیادہ سخت اور اذیت پسند پایا، وہاں جا کر گاڑی لینا تو دور کی بات دو وقت کی روٹی کے پیسے کمانا بھی جان جوکھوں کا کام نظر آیا، لیکن خواہشات کی تکمیل مجھے سکون سے سونے بھی نہ دیتی تھی۔

ہر وقت ذہن پہ شاہانہ اندازِ زندگی سوار رہتی اور آخر ایک دن اوپر والے کے نظرِ کرم نے اچھا روزگار عطا کر دیا، بس پھر کیا تھا زندگی کی ہر نعمت میسر تھی ایک وقت تھا جب گاڑی میرا جنون تھا مگر پھر ایک وقت آیا کہ تین تین گاڑیاں گھر کے باہر کھڑی رہتیں، مگر ان میں سفر کرنے کو جی نہ چاہتا، زندگی کی ہر سہولت دستیاب تھی مگر سکون پھر بھی نہ تھا۔

بس ایک ہی خیال کہ اپنے وطن پہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنا چاہیے یہ تمام تر سہولیات وہاں بھی میسر آسکتی ہیں اب اس بے چینی نے پردیس سے واپس وطن آنے پہ مجبور کر دیا اور، سب کچھ چھوڑ کر سکون کی تلاش میں لوٹ آیا چند ہی ماہ بعد یہاں پھر سے زندگی مشکل سے مشکل ترین ہونے لگی، پھر وہی خواہشات کا جنون جوش مارنے لگا اور پھر سب کچھ حاصل کر بھی لیا۔ زندگی کے چونتیس سال اسی بھاگ دوڑ میں گزر گئے سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود سکون میسر نہ آ سکا۔

اب یہ حال ہے کہ زیرو میٹر ہنڈا سیوک ہو یا ٹویوٹا جی ایل آئی یا پھر سائیکل کیوں نہ ہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ تمام تر چیزیں نا بھی ہوں مجھے پھر بھی پرواہ نہیں، میں نے ایک ہی نتیجہ نکالا ہے کہ اس دنیا میں سکونِ قلب ہی سب سے بڑی دولت ہے، آپ اپنے ہوائی جہاز پہ سفر کر رہے ہوں لیکن سینے میں دفن اس گوشت کے چھوٹے سے لوتھڑے کے اندر اطمینان نہیں تو آپ کانٹوں کی سیج پہ سو رہے ہیں، اگر آپ پھٹی ہوئی جھونپڑی میں زمین پہ سو رہے ہو اور قلبی اطمینان میسر ہے تو آپ جیسا خوش نصیب انسان کوئی نہیں۔

یہ صرف میرا ہی حالِ دل نہیں بلکہ اس دنیا میں سانس لینے والے ہر انسان کا بھی ہے، ہم سب اپنی اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ایسے ہی بے چین رہتے ہیں، ناجائز طریقہ سے سہولیات حاصل کرتے ہیں، پر آسائش زندگی کی خاطر ہر حد پار کر جانے کو تیار ہو جاتے ہیں، مگر ایک وقت آتا ہے سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود ہم خود کو بے چین اور خالی ہاتھ محسوس کرتے ہیں۔

پتہ ہے سکون کس چیز میں ہے؟ دل کا اطمینان ذکرِ خدا میں ہے اور عطاء کردہ نعمتوں پہ قناعت اور شکر گزاری میں ہے، انسان کا پیٹ بس قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے خواہشات پوری کرنے کا لالچ ہمیں کبھی سُکھ کا سانس نہیں لینے دیتا۔