1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. سعودیہ بدل گیا ہے

سعودیہ بدل گیا ہے

ایک وقت تھا جب سعودی عرب میں تصویر بنانا حرام تھا، خاص طور پہ حرمین میں کیمرہ لانے کی اجازت بلکل بھی نہ تھی، اسی طرح آپ کسی سیاحتی مقام پر بھی سرعام تصاویر نہیں بنا سکتے تھے، اور اگر غلطی سے آپ کی بنائی تصویر میں بیک گراونڈ پہ کسی سعودی خاتون کی تصویر آجاتی تو تصویر بنانے والے کے گلے بڑی مصیبت پڑ جاتی تھی، البتہ سعودی بادشاہوں کی تصاویر اپنے گھر، دفتر اور دکان پر لگانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔

پھر آہستہ آہستہ تصاویر بنانا حلال ہونے لگیں، اور اب حرمین میں جاکر ایسا لگتا ہے کہ اکثریت یہاں عمرہ یا حج کرنے نہیں بلکہ سیفلیاں لینے آئی ہے، اب آپ سعودیوں کے انسٹاگرام اور سنایپ چیٹ اکاونٹس چیک کریں تو آپ کو ایک لمحہ کے لئے ایسا لگے گا کہ یہ کسی یورپی قوم کے باشندوں کی تصاویر ہیں۔

اسی طرح پہلے گھروں میں ڈش اینٹینا لگانا حرام سمجھا جاتا تھا اگر کسی گھر پہ ڈش اینٹینا نظر آتا تو امر بالمعروف و نہی عن المنکر پولیس اس گھر پر چھاپا مار کر ڈش کو توڑ دیتی تھی اور اس گھر کے مکین پر بھاری جرمانہ بھی کیاجاتا تھا، سعودی مفتیوں نے پہلے خواتین کا گاڑی چلانا حرام قرار دیا تھا اور وجہ یہ بتائی تھی کہ گاڑی چلانے والی خواتین کو شادی کے بعد حاملہ ہونے میں مسائل بنتے ہیں۔

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ سعودیہ کے ایک منتطقہ میں کھیرے اور بینگن فروخت کرنا بھی ممنوع تھا، اس کی وجہ یہاں بتانا مناسب نہیں ہے، اب سعودیہ میں سرکاری طور پر خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور خواتین اب وہاں ٹیکسی بھی چلا رہی ہیں، پہلے وہاں تو عبایا کے بغیر گھر سے نکلنے منع تھا مگر اب تو سڑکوں پر کئی خواتین کو بغیر دوپٹہ کے بھی دیکھا جاسکتا ہے، نیٹ فلیکس پر سعودی سیریز اگر آپ دیکھیں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوجائیں کہ کیا یہ وہی اسلام کا قلعہ ہے جہاں ہر چیز کو شرک اور بدعت کہا جاتا تھا۔

اذان ہوتے ہیں دکانیں بند کردی جاتی تھیں اور سڑکوں پر گھومنے والوں کو زبردستی مسجد دھکیلنے کے لئے مولویوں کی فورس گاڑیوں پہ گشت کرتی تھی، اور اکثر لوگوں کا خروج لگا کر بلیک لسٹ اس لئے کر دیا جاتا تھا کہ وہ نماز کے وقت سڑک پر بیٹھے تھے، مگر اب ایسا نہیں ہے، بے حیائی کو روکنے کے لئے اسلامی پولیس اب کس قدر غیر فعال اور کمزور ہوچکی ہے یہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔

جدہ میں ہر سال ڈبیلو ڈبلیو ای کے ریسلنگ مقابلہ جات ہونے لگے ہیں، گزشتہ سال دارلحکومت ریاض میں میوزک کنسرٹ منعقد کیے گئے اور انڈین اداکاروں اور مشہور اداکار سلمان خان نے خصوصی شرکت کی اور حکومت کی جانب سے ان کے ہاتھوں کے نقش لے کر وال آف فیم پر لگائے گئے، جدہ اور ریاض میں اب سینما گھر بنا دئیے گئے ہیں جہاں انگلش اور انڈین فلمیں دکھائی جاتی ہیں اور وہاں ویکنڈ پہ رش دیکھنے والا ہوتا ہے، دمام کے قریب الخبر میں ایک خاص ایریا بنایا گیا ہے جہاں ہندو کمینوٹی کے لوگ اپنے تہوار آزادی سے مناتے ہیں، ساحل سمندر پر مرد و خواتین نہاتے دکھائی دیتے ہیں، یوم الوطنی یعنی نیشنل ڈے پر سعودی لڑکے اور لڑکیوں کی آزادی یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے۔

اکتوبر 2022 کے اختتام پر یورپ کی طرح وہاں ہیولین فیسٹیول بھی رکھا گیا سعودی نوجوان مرد و خواتین عجیب اور خوفناک شکلیں بنا کر سڑکوں پر چلتے نظر آئے۔ مکہ مدینہ میں زائرین و حجاج کو حرام حرام کہہ کر جہنم سے ڈرانے والے متوطے اب بے بس نظر آتے ہیں۔

محمد بن سلمان سعودی عرب کے پہلے وزیر اعظم بن چکے ہیں، بن سلمان نوجوان ولی عہد ہے اور آزاد خیال ہے، اس نے آتے ہی سعودی معاشرے میں وہ تبدیلیاں کیں جو پہلے کسی بھی بادشاہ نہ کرسکا، دراصل سعودی بادشاہ اور عوام شروع سے ہی آزاد خیال اور عیاشی کے شوقین ہیں، مکہ و مدینہ کی وجہ سے انہیں اسلامی لبادہ اوڑھنا پڑتا تھا مگر آہستہ آہستہ وہ لبادہ اتارا جارہا ہے اور سعودیہ اب عرب ممالک میں یورپ کا ایک جزیرہ بنتا جارہا ہے۔

ابھی تو شروعات ہے آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا۔