1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. تربیت

تربیت

ایک لڑکا والدین کی ہر وقت کی روک ٹوک سے بہت زیادہ تنگ تھا اور چاہتا تھا کہ وہ جلد از جلد باروزگار ہوجائے اور والدین سے دور چلا جائے تاکہ وہ آزادی سے اپنی زندگی گزار سکے، ایک دن اخبار میں ایک پرائیوٹ کمپنی کی نوکری کا اشتہار دیکھ کر خوشی خوشی شہر چلا گیا سارا راستہ یہی سوچتا رہا کہ نوکری ملتے ہی یہیں مکان لے لوں گا شادی کر لوں گا لیکن ماں باپ کو گاؤں ہی رکھوں گا ورنہ وہ میری بیوی اور میری زندگی میں ایسے ہیں پابندیاں لگا کر رکھیں گے، زندگی چار دن کی ہے اس کو خوب انجوائے کرنا چاہیے۔ انٹرویو والی جگہ پہنچ کر گیٹ کے ساتھ دیکھا کہ پانی کی نل چلی ہوئی ہے اور پانی ضایع ہو رہا ہےاس نے فوراَ وہ نل بند کر دی اندر جا کر بیٹھا تو اردگرد اخبارات کے صفحات گرے پڑے ہیں اس نے سارے صفحات اکھٹے کیئے اور طے کر کے ایک جگہ رکھ دیئے، اسے پیاس لگی پاس رکھے کولر سے گلاس میں پانی بھرا اور بیٹھ کر تین سانسوں میں پانی پیا، لوگ انٹرویو کے لیے اندر جاتے اور فوراَ ہی واپس آجاتے پوچھا تو جواب ملا کے صرف کاغذات لے رہے ہیں نوکری ملی یا نہیں یہ کچھ بتا نہیں رہے۔ جب اس لڑکے کی باری آئی تو مینجر کے آفس کے دروازے پہ کھڑے سیکورٹی گارڈ سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور اندر چلا گیا۔ اپنی فائل مینجر کے میز پہ رکھی تو مینجر نے کہا کہ کب نوکری جوائن کر رہے ہو تو لڑکے کو جھٹکا لگا اس نے سمجھا کہ شائد اسکے ساتھ مزاق کیا جارہا ہے لیکن مینجر نے کہا کہ یہ نوکری ہماری کمپنی کی دوسری برانچ کے ایڈمن مینجر کے لیے ہے ہم نے سب امیدواروں کوسیکورٹی کیمروں سے چیک کیا، سب سے الگ رویہ آپ کا ہی تھا بگڑی ہوئی چیزوں کو مناسب جگہ پہ رکھنا اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ آپ نے ہی کیا اور ایک ایڈمن مینجر کو ایسا ہی ہونا چاہے۔ اس دن اس لڑکے نے پہلی دفعہ سوچا کہ والدین کی جن باتوں کا وہ برا منایا کرتا تھا آج انہی کی سکھائی ہوئی عادات نے اسے کامیاب کیا۔

جوانی کے شروع میں ہم والدین کی ہر بات پہ روک ٹوک سے بہت زیادہ خفا رہتے ہیں، بعض اوقات اس حد تک جذباتی ہوجاتے ہیں کہ والدین کو اپنا دشمن سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ صبح کی نماز پہ جب والدین اٹھاتے ہیں نیند خراب ہونے کی وجہ سے صبح سویرے ہی ہمارا موڈ خراب ہوجاتا ہے پھر اٹھتے ہی واش روم جانے سے پہلے بستر کی چادر ٹھیک کرو، کمبل کو طے لگاؤ، واش روم سے واپسی پہ پانی کا نل اچھے سے بند کرو، کھانے کھاتے وقت چبانے کی آواز نا آئے، کھانا دائیں ہاتھ سے کھاو، درمیان میں پانی مت پیو، چائے کا کپ واپس کچن میں رکھ آؤ، سکول کی وردی گندی نا کرو، سکول سے واپسی پہ تھوڑے آرام کے بعد چلو اب قرآن پاک پڑھنے جاو پھر آکر سکول کا ہوم ورک کرو رات کو فالتو بلب بند کرکے سو، آٹھ نو بجے سو جاو تاکہ صبح نماز پہ آنکھ کھل جائے۔ بڑوں میں باادب طریقے سے بیٹھو، خواتین سے بات کرتے وقت آنکھیں نیچی رکھو، کھانستے وقت منہ کے سامنے ہاتھ رکھو، اونچا مت ہنسو، بازار گلی میں سرجھکا کر چلو، ایسی کئی عادات ہیں جو والدین کی طرف سے بڑی سختی اور بار بار کی یاددہانی سے سکھائی جاتی ہیں ہم ایک ہی بات بار بار سن کر تنگ آجاتے ہیں بعض اوقات والدین سے بدتمیزی پر بھی اُتر آتے ہیں اس وقت ہمیں جوانی کے جوش میں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا اور پھر ایک دن والدین چلے جاتے ہیں اور ہم پریکٹیکل زندگی میں قدم رکھتے ہیں نوکری ہو یا کاروبار، دوست احباب ہوں یا رشتہ داروں میں جب ہماری شخصیت کی تعریف اور ہمارے اخلاق کے گُن گائے جاتے ہیں، معاشرے میں ہم کسی مقام پہ پہنچتے ہیں تو تب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جن باتوں پہ ہم غصہ کیا کرتے تھے دراصل وہ ہماری ہی شخصیت کو تعمیر کر رہی تھیں۔

والدین کی قدر کریں تا کہ آپ کی قدر ہو۔