1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. اردو کو عزت دو

اردو کو عزت دو

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی عربی النسل ہیں اور مصر سے تعلق رکھتی ہیں، میں نے ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی کے متعلق پہلی بار ایکسپریس سنڈے میگزین میں پڑھا، ڈاکٹر صاحبہ اپنے انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ میڈیکل کا شعبہ اختیار کریں۔ مگر میڈیکل میں آنے کے لئے ان کے مطلوبہ نمبرز کم تھے، پھر انہوں نے مصر کی مشہور یونیورسٹی عین شمس کے فیکلٹی آف آرٹس کے شعبہ اردو میں داخلہ لے لیا، ابتدائی طور پر ولاء جمال العسیلی اردو کے متعلق بالکل بھی نہیں جانتی تھیں بلکہ اگر ان سے کوئی پڑھائی کا شعبہ پوچھتا تو وہ بتاتے ہوئے جھجکتی تھیں، کیوں کے مصر کے لوگ اردو زبان کو نہیں جانتے، البتہ مصر میں ہندی فلمیں اور ڈرامے دیکھے جاتے ہیں، بلکہ پورے عرب میں اردو اور ہندی کو ایک ہی زبان سمجھا جاتا ہے، ڈاکٹر ولاء جمال کو بھی یہ انکشاف بعد میں ہوا کہ اردو اور ہندی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔

چار سال اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب نتیجہ سامنے آیا تو ولاء جمال العسیلی کی پہلی پوزیشن تھی، شعبۂ اردو میں 2004 میں انکی تقرری ہوئی۔ اور انہوں نے اردو زبان وادب کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انہوں نے اردو زبان وادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 2009 میں ایم اے میں ایک مقالہ بعنوان (سرسید احمد خان کے اخلاقی و اصلاحی مضامین: ایک تنقیدی مطالعہ) اور پی ایچ ڈی 2013 میں ایک مقالہ بعنوان (فہمیدہ ریاض کی شاعری) مکمل کیا۔ پھر ڈاکٹریٹ کے بعد شعبہ اردو میں بحیثیت لیکچرر درس و تدریس کے کام میں مصروف ہوگئیں۔

2015اور 2019 کے درمیان ڈاکٹر ولاء جمال نے اردو ادب کے حوالے سے چھے مقالے تحریر کیے، جن کے موضوعات یہ ہیں: منیر نیازی کی شاعری میں بیگانگی، دلاورفِگار کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری، اردو اور عربی میں حسینی شاعری، علامہ اقبال کی شاعری میں فطرت نگاری، اردو شاعری میں قومیت اور وطنیت کے تصورات اور غضنفر کے ناول (مانجھی) میں عصر حاضر کے مسائل۔ ڈاکٹر ولاء جمال اب ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور مسلسل درس و تدریس کی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی ایک اردو شاعرہ بھی ہیں، انہوں نے اردو شاعری کا آغاز 2019 میں انڈیا کے سفر کے بعد کیا، اب تک ان کی پانچ کتب شائع ہوچکی ہیں اور چھٹی زیر اشاعت ہے۔

میں نے ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی سے رابطہ کیا حالانکہ میں بھی عربی روانگی سے بول لیتا ہوں مگر ڈاکٹر صاحبہ نے میری قومی زبان اردو میں ہی میرے ساتھ گفتگو کی ان کا ایک شعر میرے دل کو چھو گیا۔

میں نیل کے کنارے ہوں، لیکن نگاہ میں

جہلم ہے، گنگا جمنا ہے، راوی چناب ہے

میں کئی سال عرب سرزمین پر روزگار کے سلسلہ میں رہا ہوں اس دوران سعودیہ کے علاوہ بحرین، قطر، کویت اور عراق کا بھی سفر کیا ہے، میں نے عربوں کی تہذیب و تمدن کو قریب سے دیکھا ہے، عرب لوگ اپنی زبان اور اپنی تہذیب سے بہت محبت کرتے ہیں۔

آپ خود اندازہ لگائیے کہ عرب لوگ انگریزی زبان جاننے کے باوجود بھی اپنے مادری زبان عربی بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں آج بھی ان کے سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں خط و کتاب کی زبان عربی ہی ہے، حتیٰ کے ان کے کمپیوٹرز کی ونڈو بھی عربی میں اور ان کے موبائل فون کی زبان بھی عربی میں ہی ہے، ہم سعودیہ میں سعودی سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں انگریزی زبان سکھانے والا ایک سافٹ وئیر فروخت کیا کرتے تھے، اس دوران اسی فیصد سعودیوں کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ انگریزی سیکھنا اچھی بات ہے اور یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے مگر ہمیں اپنی مادری زبان بھی نہیں چھوڑنی، آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ صوبہ نجران کے ادارہ تعلیم میں میری ملاقات صوبائی وزیر تعلیم منصور المالکی سے ہوئی، اس ملاقات کے دوران ہماری گفتگو انگریزی زبان پہ ہوئی مگر اس پوری ملاقات میں اس وزیر نے ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں بولا۔

آپ گوگل پر سرچ کر کے دیکھیں اس وقت کن کن ممالک میں ہماری قومی زبان اردو پڑھائی جارہی ہے، ایسے ممالک جہاں اردو کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا وہاں کی جامعات میں طلباء اردو میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں، اور ایران کی کئی تعلیمی اداروں میں تو باقاعدہ علامہ اقبال کے کلام نصاب کا حصہ ہیں، ترکی میں بھی اب دن بدن اردو زبان کی طرف رجحان بڑھنے لگا ہے۔

اب آتے ہیں اپنے ملک پاکستان کی طرف، خود فیصلہ کیجئے کہ ہم لوگ اپنی قومی زبان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی امی ابو کی بجائے مما پاپا سکھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے اردو کم اور انگریزی زیادہ بولیں کیوں کہ ہمارے ہاں انگریزی فر فر بولنا پڑھے لکھے گھرانے کا فرد ہونے کی نشانی سمجھا جاتاہے، ہمارے سرکاری اداروں میں اب بھی دفتری زبان انگریزی ہی چل رہی ہے، انگریزی لباس کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان بولنا ہمارے ہاں تعلیم یافتہ مانا جاتا ہے، آپ کسی ریستوران میں جائیں وہاں دروازے پہ کھڑا چوکیدار بھی آپ کو انگریزی میں خوش آمدید کہتاہے، ہم زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی محفل میں بیٹھ کر اردو بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں، کسی ادارے میں رابطہ کریں تو فون اٹھانے والا چار پانچ رٹے رٹائے انگریزی جملے سنائے گا، اور اب ہم اپنی قومی زبان سے اتنے ناآشنا ہوچکے ہیں کہ یہ کالم لکھتے ہوئے بھی مجھے انگریزی الفاظ کے متبادل اردو لفظ نہیں مل رہے اور مجبورا مجھے انگریزی ہی استعمال کرنا پڑ رہی ہے، میرے اکثر سوشل میڈیا کے ایسے بھی دوست ہیں جن سے گفتگو کروں تو وہ لگاتار انگریزی ہی بولتے اور لکھتے ہیں جب میں ان سے کہوں کہ بھئی اردو بولنے میں کیا قباحت ہے تو جواب ملتا ہے مجھے اردو زیادہ آتی ہی نہیں۔

اس بات سے ہرگز انکار نہیں کہ ہمیں بین الاقوامی زبانیں سیکھنی نہیں چاہیں بلکہ یہ اس جدید دور کی اہم ترین ضرورت ہے، تعلیمی اور کاروباری رابطوں کے لئے انگریزی زبان ہی بہترین ذریعہ ہے، مگر ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہماری اردو کو دنیا بھر کے لوگ عزت اور محبت دے رہے ہیں اور اردو زبان سیکھنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں لیکن اس کے برعکس ہم اپنی زبان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ پاکستانی شعراء، ادیب اور لکھاری ہمیشہ اردو زبان کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں مگر آہستہ آہستہ ہم اپنی قومی زبان سے دور ہوتے جارہے ہیں، ڈر ہے کہ آنے والی نسلیں کہیں اردو زبان کو مکمل طور پہ بھلا ہی نا دیں۔