1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آصف علی/
  4. والدین اوربچوں کی تعلیم

والدین اوربچوں کی تعلیم

میں اپنے دوست کے پاس بیٹھا تھا وہاں سے ایک مولوی صاحب کا گزرہوا۔ مولوی صاحب میرے بہت اچھے دوست تھے اور میں بھی ان کے بڑا قریب سے جانتا تھا۔ وہ انتہائی اچھے سادہ اور نیک انسان تھے۔ اور میرے وہ دوست جن کے پاس میں بیٹھا تھا وہ مالی طور پہ کافی سڑونگ تھے اور ان کے چار بچے تھے۔ ہم ان کے بچوں سے متعلق ہی کچھ باتیں کر رہے تھے اتنے میں مولوی صاحب بھی اسی دوران تشریف لے آئے۔ میں ان سے بچوں کی تعلیم کے بارے میں پوچھ رہا تھا کہ کس کلاس میں اور کونسے سکول میں پڑھتے ہیں۔ مولوی صاحب ہمارے پاس بیٹھے ہماری باتیں بہت دھیان سے سنتے ہوئے شاید کچھ سوچ رہے تھے۔ اچانک مولوی صاحب ہماری بات کاٹتے ہوئے کچھ پوچھنے لگے کہ آپ کے بچے قرآن پاک کا علم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ تو انہوں نے ہاں میں اپنا سر ہلا دیا اور کہنے لگے جاتے ہیں مسجد میں مولوی صاحب سے قرآن کریم کا درس بھی لیتے ہیں اور ماشااللہ بہت لائق ہیں۔ ان کو انگریزی اور ریاضی بہت اچھی آتی ہے۔ میرے بچے اور ان کے اساتذہ بہت محنتی ہیں۔ میں بچوں سے ان کا سبق بڑی تاکید سے سنتا ہوں روزانہ ایک معمول کے ساتھ جب وہ سکول سے واپس آ جائیں تو کھانا کھانے کے بعد وہ اپنا ہوم ورک بڑے دھیان سے کرتے ہیں۔ مولوی صاحب ان کی یہ ساری گفتگو بڑے تحمل مزاجی سے سُن رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے تنقید کے انداز میں سوال کیا کے بھائی صاحب آپ نے کبھی اپنے بچوں سے قرآن کریم کا سبق بھی سنا ہے یا مسجد سے آنے کے بعد پھر کبھی دہرانے کے لئے بچوں کو آمادہ کیا ہو۔ ابھی مولوی صاحب کی یہ بات سن کے وہ خاموش ہو گئے اور ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے مولوی صاحب کی یہ بات ان کے دل کو لگی ہو۔ ان کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ حیران و پریشان ہیں۔ اتنے میں مولوی صاحب نے بہت سادہ انداز میں ان سے عاجزانہ طور پر بات کرنے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے دھیمی سی آواز میں ہاں کے لئے بولا جی مولوی صاحب آپ حکم فرمائیں۔ مولوی صاحب نے کہا جناب میری کیا مجال میں آپ کو حکم کروں۔ میں تو ایک بات جو مجھے سوچنے پر مجبور کر رہی ہوتی ہے روز اپنے دل سے سوال تو کرتا ہوں لیکن اس کا جواب نہیں ملتا۔

مولوی صاحب کہنے لگے کہ مجھے کچھ شکایت ہے خود سے آپ سے ہر اس ماں سے جو اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لئیے ان کو اچھی تعلیم تو دلواتے ہیں لیکن صرف دنیاوی تعلیم دے کر ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا بچوں کی تعلیم مکمل ہو گئی ان کو اچھی نوکری بھی مل جائے گی ہم بھی سرخرو ہو جائیں گے۔ لیکن ہم حقیقت میں بہت کچھ بھول رہے ہوتے ہیں۔ کیا قرآن کریم کی تعلیم اتنی کم اہمیت کی حامل ہے جو ہمارے بچے ایک سے آدھ گھنٹے کے مسجد جاتے ہیں اور ہم دوبارہ سے اس کا پیچھا نہیں کرتے اور نہ ان کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کو بھی اتنی ہی ترجیح دیں۔

میں اس بات پہ حیران ہوتا ان ساری ماوں سے جو بچے کو مسجد تو بجھواتی ہیں لیکن صرف ایسے جیسے وہ اپنے سر سے کوئی قرض اتار رہی ہوں۔ جیسے تیسے بچے سو کر اٹھے تو ہم نے ان کو نہ تو تیار کیا نہ اچھے کپڑے پہنائے، نہ خوشبو لگائی نہ کوئی ٹائی کوٹ کچھ بھی نہیں۔ ایسے میں بچے اپنا ناک بھی خود ہی صاف کر رہے ہوتے ہیں جو ان کو پوری طرح سے کرنا نہیں آتا اور مولوی صاحب بچارے جوہمارے ملک پاکستان میں کم ترین اجرت لے کر مسجد میں اور درس و تدریس کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں وہ بھی کچھ نہیں کہتے۔ ان کے پاس بچہ جس حالت میں بھی گیا وہ تو شکر ادا کرتے ہیں کہ چلو اسی بہانے مسجد میں تو آ جاتے ہیں آہستہ آہستہ عادت ہو جائے گی اور صفائی کی بھی سمجھ آجائے گی۔ اگر میں ان کو واپس بجھوا دوں گا تو پھر یہ واپس مسجد نہیں آنے والے پہلے بڑی مشکل سے بیس سے پچیس منٹ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ کے لئے میرے پاس آتے ہیں تو اسی کم وقت میں ان کو اللہ و روسولﷺ کی چند باتیں سکھا دیا کروں۔ لیکن وہ بھی اس ماں پہ ضرور حیران ہوتا ہے جو اپنے بچے سکول بھیجتے وقت اچھی طرح نہلا کر نئی وردی کے ساتھے خوشبو لگا کر آنکھوں میں سرمہ لگائے ہوئے باقاعدہ ان کی متعلقہ کتب چیک کر کے ان کے سکول بجھواتی ہیں کہ کسی چیز میں کوئی کمی نہ رہے جائے۔ میرے بچے کی وردی بھی نئی اور چمکتی ہوئی ہونی چاہیے اور ان کی کوئی کتاب بھی کم نہ ہو جس کی وجہ سے ان کے اساتذہ سے سزا ملے یا پھر کلاس کے باقی بچوں سے پیچھے رہ جائے۔ لیکن یہاں کیا پڑھ رہے ہیں قرآن کریم کی تلاوت کریں گے اور پھر مسجد ایک مقدس جگہ ہے اس سکول کی نسبت جس میں وہ نہا دھو کر جاتے ہیں۔ خوشبو لگائے ہوئے اور پھر پانچ سے 7 گھنٹے گزار دیتے ہیں اور یہاں چند منٹ بہت مشکل سے۔

ابھی بھائی صاحب مولوی صاحب کی یہ ساری گفتگو بڑی توجہ کے ساتھے سن رہے تھے اور اپنی آنکھوں کو نیچے جھکائے ہوئے پشیمانی کے عالم میں اپنے سر کو ہاں میں ہلا رہے تھے۔ ان کو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے وہ بہت بڑی غلطی کر رہے ہوں اور ابھی بھی ان کے پاس وقت ہے اس کے سدھارنے کا۔ اور یقیناً وہ ٹھیک سوچ رہے تھے۔ مجھے بھی مولوی صاحب کی تنقید کرنے کا انداز اور ان کی بات بھی پسند آئی۔ کہ ہم تو واقعی میں کچھ غلط کر رہے ہیں جو اس بات پر کبھی دھیان ہی نہیں کر رہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ دنیا سے زیادہ تو دین عزیز ہونا چاہیے کیوں کہ ہم تو مسلمان بھی ہیں اور پھر قرآن و حدیث کے علم سے بالکل ہی پیچھے ہیں۔ ابھی مولوی صاحب جانے کے لیے اجازت لینے لگے، شاید ان کو کہیں جانا تھا اور ساتھ ہی وہ بہت عاجزی و انکساری کے انداز میں کہنے لگے کہ اگر میری کوئی بات آپ کے دل کو لگی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔ اور مولوی صاحب چل دئیے۔ ہم لوگ سوچ رہے تھے کہ ان کی بات تو حقیقت ہے لیکن ہم نے کبھی اس بات پہ غور ہی نہیں کیا۔ وہاں پہ ہم نے بیٹھے ارادہ کیا کہ آئندہ جب بھی ہمارے بچے مسجد میں جائیں گے توان کو باقاعدہ نہلا کر اچھا لباس زیب تن کر کے بجھوایا جا ئے گا اور پھر دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کی تعلیم بھی لازم قرار دیں گے۔