1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آصف علی/
  4. قربانی کے لئے قربان

قربانی کے لئے قربان

وہ پچھلے 10 سال سے مجھ سے دور تھا، ہمیں الگ ہوئے دس سال گزر چکے تھے ان دس سالوں میں روز و شب کے ایسے لمحات بھی گزرے جو مشکل ترین بھی تھے اور خوشی بھرے لمحات بھی تھے۔ اک دم اچانک وہ میرے سامنے آیا لیکن میری آنکھیں دھوکھا کھاتے ہوئے رہ گئیں، اور میں نے اپنی طاقتور یاد داشت سے اسے پہچان لیا کہ وہ میرا بیج میٹ تھا، جس کے ساتھ مل کر ملک و قوم کی خدمت کے لیے ہم نے ایک ساتھ قسم کھائی تھی۔ وہ کافی شرارتی اور ہر ایک کا دلعزیز دوست تھا۔ ہمارے گروپ میں ایک ہی نام کے دو اشخاص تھے۔ ایک خلیل احمد ناز اور دوسرا خلیل احمد تھا جس کو ہم سب دوست خلیل احمد سادہ کہہ کر پکارتے تھے۔ اس کی زندگی کے وہ شرارتی لمحات کچھ ایسے گزرے کے ہر لمحہ یاد آتے رہتے ہیں۔

میں اچانک اس کو دیکھ کر حیران ہوا کیونکہ وہ میرے لیے کسی سر پرائز سے کم نہیں تھا۔ اتنا وقت گزر جانے کے بعد وہ شاید مجھ کو پہچان نہ سکا، لیکن میں نے اس کو فوراً ہی پہچان لیا تھا۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ تھا، شاید کوئی شاپنگ کرنے کے سلسلے میں آیا تھا۔ میرے ساتھ میرا ایک اور دوست بھی تھا، دوپہر کا وقت ہو رہا تھا تو اس وقت ہم پاس ہی کے ہوٹل میں کھانے کے لئے جانے کا ارادہ کر رہے تھے۔ کہ اچانک اس سے ملاقات کا سبب پیدا ہوا۔ میں نے اس کو آواز دے کر روکا اور گلے ملنے کے بعد بچوں سے پیار کیا اور خیریت طلب کرنے لگا، تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ ہم کھڑے کھڑے باتیں کر رہے تھے ساتھ ہی بچوں کے چہرہ پر مجھے کچھ ایسے تاثرات معلوم ہوئے جیسے کو کچھ کہنا چاہ رہے ہوں اور بول نہیں پا رہے۔ میں نے بچوں سے پوچھا کہ بیٹا آپ کھانا کھاو گے، بچوں کے بولنے سے پہلے ان کے والد صاحب اور والدہ نے ایک ساتھ جواب دیا نہیں بھائی جان ہم گھر سے کھانا کھا کر آئے ہیں بس بچوں کو گھمانے لایا تھا کافی دنوں سے بضد تھے۔ ساتھ ہی بچوں پیاسی آنکھوں سے میری طرف دیکھتے اور اپنے والدین کی طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے دونوں بچوں کا ہاتھ پکڑا اور کہا بیٹا آجاو آپ میں آپ لوگوں کو کھانا کھلاتا ہوں، ساتھ ہی بہت شاندار ہوٹل میں داخل ہوا بہت پیارا اور صاف ستھرا ماحول دیکھتے اور کبھی وہ میری طرف دیکھتے، ایک نظر پیچھے کی جانب دیکھا تو ان کے والدین بھی ان کی طرف چلتے ہوئے آ رہے تھے۔ ہم ہوٹل میں کافی سارے مہمان اپنے دوست احباب کے ساتھ کھانا کھاتے ہنستے مسکرا رہے تھے۔ میں نے ایک بڑے ٹیبل کا انتخاب کیا جس پر ہم سب ایک ساتھ بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کھانا پسند کریں کے آپ، تو اس وقت بھی ان کی یہی ضد تھی کہ نہیں بھائی جان آپ تکلف نہیں کریں ہم نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے ابھی رہنے دیں۔ ساتھ ہی بچوں کی طرف دیکھا تو انہوں نے آنکھیں نیچی کر کے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا، میں نے ویٹر کو اشارہ کیا اور سب کے لیئے بہترین کھانا لانے کو کہہ دیا اور ساتھ میں آئسکریم بھی منگوائی۔ کھانا ٹیبل پر پہنچنے کی دیر تھی کہ بچوں نے کھانے کی طرف دیکھا اور اس انداز میں مسکرا کر شکریہ ادا کیا کہ مجھے لگا جیسے میں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو۔ بہرحال میں نے کھانا شروع کرنے کے لیئے کہا اور بچوں سے کہنے لگا بیٹا اگر آپ لوگ کچھ اور کھانا پسند کریں تو منگوا لوں تو انہوں نے نہ میں سر ہِلا دیا۔
ابھی سب لوگ کھانا کھا رہے تھے میرا دوسرا دوست بھی میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا جو کھانا کھاتے ہوئے بچوں کی جانب دیکھتا ہواک کافی خوش ہو رہا تھا۔ کہ بچے خوشی خوشی سے کھا رہے تھے، میرے دیکھتے ہی بچوں نے کھانا ختم کیا میں نے ایسے محسوس کیا کہ کافی دن سے فاقے کے بعد جیسے کوئی خوب سیر ہو کر کھانا کھاتا ہو، یقیناً وہ لمحات دیکھ کر مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی، دل کو اچھا لگا۔ میں نے ویٹر کو اپنی طرف بلایا اور بل لانے کے لیئے کہا، ابھی خلیل صاحب کہنے لگئے نہیں بھائی جان آپ رہنے دیں بل میں ادا کرتا ہوں لیکن اس کا چہرہ اس کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ میں نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ جناب کیسی باتیں کرتے ہو آپ؟ ویٹر کو بل ادا کر کے ہم روانہ ہوئے ایک دوسرے کو خیر باد کہہ کر گھر کو آ گئے اور شام کو عشاء کا وقت قریب تھا کہ میرے دوست نے مجھے کال کی۔ یہ کال میرے لئے کسی حیرت سے کم نہ تھی کیونکہ پچھلے گزرے وقت کے ساتھ ہمارا رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔ میں نے اسلام و علیکم کہتے ہوئے ان کی کال رسیو کی روٹین کے ساتھ خیریت طلب کی اور خاموش ہو گیا، مجھے ایسا لگا کہ صاحب کچھ کہنا چاہ رہے ہیں اتنے میں مجھے ان کے کپکپاتے ہونٹوں کی جنبش محسوس ہوئی تو میں نے انتہائی نرم دلی سے پوچھا کیا بات ہے آپ رو کیوں رہے ہے، سب ٹھیک تو ہے نہ، وہ کہنے لگے آصف بھائی میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہ رہا تھا لیکن پتا نہیں کیسے کروں، میں نے کہا یار آپ کیسی بات کر رہے ہو کیسا شکریہ، اتنے میں وہ پھسل پڑا اور کہنے لگا سچ کہوں تو ہم تین دن سے بھوکے سو رہے تھے بچوں نے بھی کچھ نہیں کھایا تھا، وہ ہر روز اس بات کی ضد کرتے میں باہر جاتا یہ کہہ کر کے بازار سے کچھ لاتا ہوں تو وہ میرے جانے تک سو چکے ہوتے اور میں خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتا۔ آج بھی اسی بات کو لے کر ضد کرتے ہوئے ہم بازار کو نکل پڑے کہ بچوں کا دل بہل جائے گا۔ ابھی آپ سے کیا چھپاوں حالات اس قدر خراب ہیں کہ اب تو بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے کچھ مہنگائی اس قدر آسمان کو چھو رہی ہے کہ غریب آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ اوپر سے بچوں کی پڑھائی اور سکولوں کی فیسیں کم پڑھ رہی ہے۔ میں نے ان کو دلاسا دیا اور صبح اپنے گھر آنے کو کہا لیکن اس نے منع کر دیا اور ساتھ میں کہا کہ آپ سے ایک عرض کرنا چاہوں گا اگر آپ مناسب سمجھیں توں کیونکہ میرا اور آپکا تعلق بھی کافی پرانا ہے اور آپ کے ساتھ ایک اچھا اخلاقی رشتہ بھی ہے تو میں چاہا رہا ہوں کہ اپنے ایک بیٹے کو آپ کی خدمت میں بھجوا دوں جو آپ کے گھریلو کام کاج میں مدد کر دیا کرے گا اور ہر مہینہ کا اختتام پر اس کو جو مناسب اجرت ملے گی اس سے ہم گھر کا چولہا چلا سکیں اور دوسرے بھائی کی پڑھائی کا بھی دھیان رکھ سکیں گے۔ اس کی یہ بات سننا تھی کہ میری آنکھیں پر نم ہونے لگیں اور میں نے اس کو بات کرنے سے روک دیا، اور یہ کہنے لگا کہ آج سے تیرے بچوں کی پڑھائی کی ذمہ داری میں اٹھاتا ہوں آپ اپنے بچے کی قربانی اس قدر نہ دیں جس سے میں مستفید تو ہوں لیکن اس مالک کائنات نظر میں ایک حقیر اور گنہگار انسان ٹھہروں۔

ایسی قربانی ہر گز نہ دیں جس سے اپنی خواہشات اور بہتر مستقبل اس اندھیرے میں چلا جائے جہاں سے باہر نکلنا مشکل ہو۔ ان مساکین و غرباء کی قربانیاں جس کے تحت ہم عیاشی اور شہنشاہانہ انداز کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، کیا ہم جواب دہ نہیں ہوں گے۔ کیا وہ لوگ جو اپنی اولاد کو قربان کر رہے ہوتے ہیں ان کی خواہشات کو قربان کرتے ہیں ان کی خوشیاں کسی دوسرے کی خاطر قربان کرتے ہیں کیا ان کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا، کیا ان کی خوشیاں نہیں ہوتی؟ کل روز قیامت ہم کیا جواب دیں کے اس مالک کائنات کو جس نے انسان کو دکھ تکلیف پہنچانے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ایسی خوشی کھبی بھی سکون دہ نہیں ہوتی جس کے پیچھے خوشی قربان کی جا رہی ہو، خواہشات کو مارا جا رہا ہو۔ کیا مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی اس طرح بن سکے گا۔؟ کیا صحیح راستے پر ہیں۔؟