1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آصف علی/
  4. لاک ڈاون

لاک ڈاون

پوری دنیا لاک ڈاون کے شکنجے میں کسی ہوئی تھی، اور وطنِ عزیز بھی کرونا کی یلغار کی زد میں آچکا تھا۔ جس کی وجہ حکومت کی کاہلی اور سستی تھی۔ شروع کے ایام میں حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی اور اب لاک ڈاون۔ دنیا کا کامیاب ترین فامولا لاک ڈاون صوبہ پنجاب میں بھی لگا دیا گیا۔ آج لاک ڈاون لگے ہوئے چوبیس دن گزر گئے اور ابھی تک لاک ڈاون مزید بڑھانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ میری گزشتہ عشروں کی زندگی شدید مصروفیات میں گزری، شادی بیاہ، خوشی غمی میں شرکت کے باعث کہیں جانا ہوا تو، اوپر سے میرا مزاج ایسا کے چاہنے والے بہت کوئی محض دل لگی کے لئے تو کوئی روحانی غذا لئے پسند کرتا ہے۔ اوپر سے تھوڑی بہت خدمتِ خلق میں مصروفیت۔ سال ہا سال گزر گئے آئے دن مصروفیت بڑھتی چلی گئی، یہاں تک کہ جسم بیماری کی زد میں بھی آتا رہا لیکن پرواہ نہ کی۔ اب جب لاک ڈاون ہوا تو میں نے خوب عبادت مراقبہ سانس کی مشقتیں چھت پر جا کر کیں۔ فطرت کے ساتھ گوشہ نشینی آسمان کا نیلا رنگ چاند ستارے آسمان کی نیلگوں وسعتیں پرندوں کی قطاریں ٹھنڈی فضاوں کا رومانس کچھ دیر گھر میں ہلکی پھلکی ورزش وغیرہ۔ دو چار ایسی کتابیں جو کافی دیر سے پڑھنے کی خواہش تھی لیکن بے پناہ مصروفیت ڈھلتی عمر کم وقت کی وجہ سے پڑھی نہیں جا رہی تھی، ان کا مطالعہ شروع کیا۔ دوستوں اور رشتہ داروں کے نام کی ایک فہرست بنانا شروع کی۔

وہ دوست اور جاننے والے جن سے کتنے سال گزر گئے رابطہ نہ ہو سکا۔ ان سے خوب رابطے کئے ان کے مسائل پوچھے جہاں تک سمجھ آئی ان کو تجاویز بھی پیش کی۔ اس کے علاوہ اپنی استطاعت کے مطابق کچھ لوگوں کی مدد بھی کی۔ راشن اور کچھ پیسوں سے مددکی۔ تاکہ لوگوں کی زندگی کا دھاگہ ٹوٹ نہ جائے اور سفید پوشی بھی قائم رہے۔ میرے پاس کافی وقت تھا کیونکہ اب باقی تمام سرگرمیاں ترک ہو چکی تھیں۔ میں نے ایک کتاب شروع کر رکھی تھیں جو کافی دنوں سے نامکمل تھی۔ پوری طرح وقت نہ ملنے کی وجہ سے اس کو مکمل نہ کر سکا لیکن ابھی میرے پاس کافی ٹائم تھا۔ دوست احباب کی لسٹ میں سے ایک دوست کو فون کیا جو میرا کافی پرانا اور بہت اچھا دوست تھا۔ روزمرہ کی مصروفیت ہونے کے باعث ہمارے باہمی روابط ترک ہو چکے تھے۔ میرے فون کی دوسری گھنٹی کے ساتھ ہی اس نے سلام کے ساتھ جواب دیا اور ساتھ ہی شکوے بھرے الفاظ میں کہنے لگا کے آج کیسے یاد آ گئی غریبوں کی، ویسے میں خود بھی سوچ رہا تھا کہ آپ سے رابطہ کروں۔ خیر خریت کے بعد لاک ڈاون کی موجودہ صورتحال پہ تبصرہ شروع ہو گیا۔ وہ کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس لاہور میں کافی حالات خراب ہیں۔ ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی مریض ہے جس کے باعث گلیاں محلے مکمل طور پر بندکر دیئے گئے ہیں۔ افواجِ پاکستان، پولیس اور دیگر ادارے ان کی نگرانی کے لئے تعینات کر دئیے گئے ہیں۔ جس کے باعث گھروں سے نکلنا محال ہو چکا ہے۔ وہ گاوں کا رہنے والا تھا تو میں نے اس سے گاوں کے حالات اور گاوں کے لوگوں کے بارے میں پوچھا قہقہ لگا کر بولا یار تم بچے لیکر میرے پاس آ جاو۔ یہاں تو سب خیر ہی خیر ہے۔ لوگ خیر خیریت سے رہ رہے ہیں۔ سب کے ساتھ ہنسی خوشی وقت گزار رہے ہیں۔ ادھر تو سارا سارا دن گلی بازاروں میں میلہ لگا رہتا ہے۔ یہاں تو ہو ہی پرانی باتیں کہ موت کا جو دن قبر میں لکھا ہے وہ باہر نہیں۔ اس لئے ان کے سماجی تعلقات اور طرز معاشرت میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ کوئی گاوں میں کوئی چہرے پر ماسک پہن بھی لے تو لوگ اس کا مذاق اڑاکر حشر کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی گھر میں بیٹھ جائے تو لوگ اس کے گھر جا کر اس کو بازو سے پکڑتے ہوئے باہر لے آتے ہیں۔ یہاں احتیاط پرہیز لاک ڈاون کا نام نہیں ہے۔

زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہے بلکہ تبدیلی یہ آئی ہے جو لوگ شہروں میں نوکری کے لئے ہفتہ رہ کر آتے تھے ہو یہاں عارضی طور پر آئے ہیں۔ یہاں لاک ڈاون کیا ہونا تھا گھروں سے باہر سرگرمیاں اور بھی زور پکڑ گئیں ہیں۔ لوگ گلی محلوں بازاروں اور کھیتوں میں مل کر زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ تو میں نے پوچھا کہ لوگ غریب لوگوں کا خیال کر رہے ہیں؟ تو وہ بولا جناب گاوں میں غریب کوئی نہیں ہوتا۔ یہاں پر غریب سے غریب بھی سالانہ اجناس سٹور کر لیتے ہیں جو سال بھر کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اس نے گھر ہی سے آٹا چاول پیاز وغیرہ نکال کر استعمال کرنا ہوتا ہے تو اس کے لئے مشکل نہیں ہوتی۔ یہاں پر بھوک یا غذائی قلت کا معاملہ نظر نہیں آتا اگر کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے بھی تو ان کے تعلقات اور رشتہ داریاں میں اتنا تسلسل ہے کہ وہ بلاخوف و خطر ایک دوسرے سے مددلینے میں جھچک محسوس نہیں کرتے۔ اس سے ساتھ میں نے پوچھا کہ اگرآپ کے ہاں کوئی ایسا خاندان ہو جن کے لئے اشیائے خوردونوش کی کمی ہو تو میں ان کی مددکروں گا۔ آپ بس مجھے ان کا پتا بتا دیں، میں نے ساتھ ہی تین غریب لوگوں کا ایڈریس لکھا اور فون پر بات ختم کرتے ہوئے بند کر دیا۔ تین دن بعد میرے اسی دوست نے مجھے فون کر کے خیریت معلوم کرتے ہوئے ان غریب گھروں کا پوچھا کہ راشن دینے کے لئے جن تین گھروں کے ایڈریس لئے تھے شاید آج ان کے ہاں جانا ہے، تو اس لئے مجھ سے اگر کوئی راہنمائی کی ضرورت ہو تو بتانا۔ لیکن میں نے جب فون اٹھایا تو صورتحال بالکل ہی مختلف تھی۔ اس کی دکھ درد میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی، وہ انسان جو لاپروہی کے باعث ٹی بی کے مرض کے ساتھ بستر مرگ پر جا پہنچا، تب سے موت کو اتنے قریب سے دیکھا کہ پیروں سے زمیں نکل گئی۔ تب سے میرا دل نرم پڑھ گیا ہے۔ کسی کو دکھ تکلیف میں دیکھ کر خود بھی کمزور پڑھ جاتا ہوں۔ کسی دوسرے کا درد مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ میرے ساتھ اب بھی کچھ ایسا ہو ہوا جب میں تیسرے گھر راشن دینے کے لئے پہنچا تو اندر سے ایک بڑھیا ڈنڈے کا سہارا لیتے ہوئے دروازے پر آئی۔ مجھ دروازے پر دیکھ کر بولی جی بیٹا۔؟

میں نے کہا ماں جی کچھ سامان لےکر آیا ہوں، اور آپ کے گھر میں کون کون ہے؟ تو وہ بولی تین بیٹاں ہیں تین چھ اور آٹھ سال کی۔ ان کے والدین حادثے اللہ کو پیارے ہو گئے اور وہ اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ ابھی کرائے کا مکان ہے۔ ان کا اور کوئی سہارا بھی نہیں ہے اس ذاتِ بےنیاز کے سوا۔ میں ایک پرائیوٹ سکول میں صفائی کا کام کرتی ہوں بہت تنگی ہے۔ ابھی تو سکول والوں نے تنخواہ دینابھی بند کر دی ہے۔ بیٹا بہت مشکل سے گزرار ہے۔ اس دوران چھ سالہ چھوٹی بچی اپنی دادی سے بولی دادی آج کال کونسے دن ہیں۔؟ عید یا رمضان کریم۔؟ کہ ہمارے گھر میں سامان آ رہا ہے اور ہم تین وقت پیٹ بھر کر کھانا کھا رہے ہیں حالانکہ پہلے تو ایک یا دو وقت کا کھانا ملتا تھا۔ جسے ہم سیر ہو کر بھ نہیں کھا پاتے تھے۔ جب یہ دن ختم ہو گئے تو ہمارے گھر کھانا نہیں آئے گا۔؟ اور پھر ہم بھوکے رہیں گے۔ بچی کی بات خنجر بن کر میرے دل میں اُتر گئی کہ کاش ہم سارا سال ایسے لوگوں کو راشن دیں اور ان کی دیگر ضروریات کا خیال رکھ سکیں۔