1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آصف علی/
  4. یقین اور عقیدت

یقین اور عقیدت

ایک فقیر نے ایک بزرگ کے سامنے دست سوال دراز کیا اور ساتھ ہی دعا دی اللہ تعالیٰ تمہیں بادشاہ بنائے، بزرگ نے اس سے پوچھا " کیا تم بادشاہ بننا چاہتے ہو"فقیر نے حیران ہو کر جواب دیا" جناب میں نسلوں کا فقیر، میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں" بزرگ نے کہا " چلو ہم ایک تجربہ کرتے ہیں، میں تمہیں بادشاہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تو تم مجھے حج کرواؤ گئے اور میں اگر ناکام ہو گیا تو میں پوری زندگی تمہاری کفالت کروں گا" فقیر مان گیا، بزرگ نے اس سے کہا " تمہاری جیب میں کتنے پیسے ہیں"فقیر نے پیسے گنے، وہ تیس روپے تھے، بزرگ نے اسے مٹھائی کی دکان پر بھیجا، تیس روپے کی جلیبیاں منگوائیں، سامنے بے روزگار مزدور بیٹھے تھے، بزرگ نے اسے حکم دیا "تم یہ جلیبیاں ان مزدوروں میں تقسیم کر دو" فقیر گیا اور جلیبیاں مزدوروں میں بانٹ آیا، بزرگ نے اسے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور حکم دیا "تم گھر چلے جاؤ، تیس دن انتظار کرو اور دیکھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے" فقیر چلا گیا، وہ تیسرے دن دوڑتا ہوا بزرگ کے پاس آیا، وہ خوشی سے چھلانگیں لگا رہا تھا، بزرگ نے وجہ پوچھی، فقیر نے بتایا "مجھے پچھلے مہینے ایک کلرک نے بھیک میں پرائز بانڈ دیا تھا، میں نے وہ بانڈ سنبھال لیا، آج وہ بانڈ نکل آیا، میں بیٹھے بٹھائے تین لاکھ روپے کا مالک بن گیا" بزرگ مسکرائے اور اس سے کہا "یہ بانڈ تمہارا نہیں، اس کا مالک وہ ہے جس نے تمہیں یہ بانڈ دیا تھا، تم بانڈ کے مالک کو تلاش کرو، یہ رقم اسے واپس کر دو اورانتظار کرو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے" فقیر کو یہ آئیڈیا بہت برا لگا لیکن اس کے باوجود اس نے کلرک کو تلاش کیا اور بانڈ لے کر اس کے پاس پہنچ گیا، کلرک فقیر کی ایمانداری پر حیران رہ گیا، وہ فقیر کے ساتھ دفتر سے نکلا، ڈی سی آفس گیا، وہاں کنسٹرکشن کمپنی رجسٹر کرائی، فقیر کو پچاس فیصد کا حصہ دار بنایا اور سرکاری ٹھیکے لینا شروع کر دیئے، وہ دونوں مل کر کام کرتے تھے، کلرک ٹھیکہ لیتا تھا اور فقیر کام کرواتا تھا، یہ کمپنی مزدوروں کو تین وقت کا کھانا دیتی تھی، کمپنی چل پڑی، کلرک اور فقیر دونوں امیر ہو گئے، یہ دونوں بزرگ کو ہر سال حج پر بھجواتے تھے اور شام کے وقت فقیروں کو روک کر انہیں بادشاہ بننے کا نسخہ بتاتے تھے، یہ کمپنی آج بھی قائم ہے، اس میں اب کلرک اور فقیر کے بچے کام کرتے ہیں، یہ کمپنی تیس روپے کے صدقے سے شروع ہوئی، یہ اب تک درجنوں لوگوں کو بادشاہوں جیسی زندگی دے چکی ہے، میں ذاتی طورپر ایسے بیسیوں لوگوں سے واقف ہوں جو جاہل بھی ہیں، نالائق بھی اور غیر محتاط بھی لیکن ان پر اللہ تعالیٰ کا کرم برستا رہتا ہے، میں نے جب بھی تحقیق کی، مجھے اس کرم کے پیچھے ہمیشہ صدقہ اور خیرات ملی، یہ دل کے سخی اور ہاتھ کے کھلے ہیں، میں نے ایک اور چیز بھی مشاہدہ کی، انسان اگر صدقہ کرے اور ساتھ ہی عاجزی اختیار کر لے تو دولت بھی ملتی ہے اور عزت بھی کیونکہ جس طرح خوش حالی کا تعلق صدقے سے ہے بالکل اسی طرح عزت عاجزی سے وابستہ ہے، آپ جتنا جھکتے جاتے ہیں آپ کی عزت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے، آپ اس معاملے میں اولیاء کرام کی مثال لے لیجئے، اولیاء کرام میں عاجزی ہوتی ہے چنانچہ ان کے مزارات ہزار ہزار سال تک آباد رہتے ہیں، یہ کھلے دل اور فراخ ہاتھ بھی ہوتے ہیں چنانچہ ان کے درباروں پر ان کے انتقال کے بعد بھی لنگر چلتے ہیں اور بادشاہ مال و متاع لے کر ان کی درگاہ پر حاضر ہوتے رہتے ہیں۔ اور ہدیہ عقیدت پیش کر رہے ہوتے ہیں۔