1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. آصف علی/
  4. سرکاری نوکریاں صرف ایک خواب

سرکاری نوکریاں صرف ایک خواب

وہ شخص میرے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں اور بہت ہی افسردہ لہجے میں اپنے کپکپاتے ہونٹوں کو سہلاتے ہوئے کہنے لگا کہ گزشتہ روز میں نوکری کے لیئے ٹیسٹ کے لئے جانے والا تھا کہ اچانک اس کو ایک لیٹرجو ڈاکیا لے پہنچا جس میں کچھ سخت احکامات جاری کیے گئے تھے کہ الیکشن ڈیوٹی پہ پاک فوج کی ذمہ داری عائد ہوگی اور آپ کے پاکستان آرمی کے رکن ہونے کے باعث الیکشن کمیشن کے احکامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے آپ کی شرکت ہر حال میں لازم ہو گی اور اگر آپ کسی وجہ سے شریک نہ ہو سکے تو آپ کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی۔ ابھی وہ بے روزگار تو تھا ہی لیکن اس کے گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر کچھ چند پیسوں کی خاطر اپنے گھر کا چولہا جلانے کی خاطرمحنت و مشقت کرتا تھا جس سے وہ اپنی زندگی کے ان لمحات میں خوش بھی تھا اور بہت زیادہ شکوہ بھی تھا اس کو خود سے یا حکومت سے؟

وہ حالات حاضرہ کی مہنگی خورونوش اور ضروریات زندگی کو بروئے کار لانے کے لیئے اس کی دن رات کی محنت تو تھی لیکن اس مہنگائی کی تلوار سے خاصہ پریشان حال تھا۔ اور وہ ہر آنے والے نئے دن میں اس کوشش میں لگا رہتا تھا کہ اسے کوئی سرکاری نوکری مل جائے جس کے تحت وہ اپنا خرچ اٹھا سکے۔ اور اسی مشکل حالات میں رہ کر وہ اپنی تعلیم تو پوری کرنا چاہ رہا ہے لیکن مہنگائی کا یہ عالم اور یونیورسٹیوں کی فیس اس کے حالات ساتھ نہ دینے کی وجہ سے بے حد مجبور ہونے پر کچھ نہ کر سکا۔

وہ ہر دفعہ کوشش کر رہا تھا کہ گورنمنٹ آف پاکستان کی شائع کردہ نوکریاں جس کے اہل ہے اس پہ درخواست دے سکے اور نوکری پاسکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ ہر آنے والی نوکری کے لئے درخواست دے سکتا ہے؟ کیا اس کے پاس اتنے وسائل ہیں جو درخواستوں کی فیس ادا کر سکے؟ کیا اسے نوکری مل جائے گی؟ ایک وہ طالب علم جو غربت کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ والدین جو اپنے منہ سے نوالہ چھین کر اپنے بچوں کی تعلیم پہ لگا رہے ہوتے ہیں تاکہ ان کا مستقبل بہتر ہو سکے۔ وہ خود اچھے کپڑے نہیں پہنتے لیکن اپنے بچوں کو اچھی یونیفارم لے کر دیتے ہیں کہ ہمارا بچہ پڑھ رہا ہے اور کل کو اسے اچھی نوکری ملے گی تو پھر ہم اچھے کپڑے پہننے کے اہل ہوں گے۔ جب بچہ اس قابل ہوا کے وہ والدین کو اچھا کھانا کھلا سکے، اچھے کپڑے دِلا سکے دنیا کی تمام سہولیات دے سکے تب تک وہ اس قابل تو ہر چکا ہوتا ہے کہ کسی کی نوکری کر کے کچھ کما سکے اور اپنی ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی خدمت کر سکے۔ ان ساری سوچوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جب وہ نوکری کے لیئے درخواست دینا چاہ رہا ہوتا ہے تو ایک درخواست دینے سے قبل وہ ہزار دفعہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ درخواست دے یا نہ دے؟ کیا وہ درخواست دینے کے بعد کامیاب ہو پائے گا؟ کیا حکومت کے منتخب کردہ نمائدگان اسے نوکری دے دیں گے؟ کیا اس کے ساتھ انصاف ہو سکے گا؟ ایک طرف یہ کشمکش اس کے کھائے جا رہی ہوتی ہے اور دوسری طرف اداروں کی فیسیں جو بھرتی تو کرتے نہیں لیکن فیس اس حد تک وصول کر رہے ہوتے ہیں کہ بھرتی ہونے والے حضرات کی آئندہ دس سال کی تنخواہ وہ ان بے روزگار طلبہ سے اکھٹی کر چکے ہوتے ہیں جن کے گھر میں شائد چولہا بہت مشکل سے جلتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے ان کی تعلیم کے اخراجات کسی دوسرے انسان کے ذمہ ہوں جو صاحب مال ہو، کوئی اچھا انسان جو صدقہ جاریہ سمجھ کر ان کو تعلیم دلوا رہا ہو۔

وہ بے روز گار نوجوان جو ان سب مشکل حالات سے دوچار ہوتا ہے وہ اب اس سوچ میں گم ہے کہ درخواست کی فیس کہاں سے ادا کرے کوئی چھ سو روپے، کہیں ہزاروں میں، کہیں پر تین سو بلکہ اس سے زائد اگر گورنمنٹ کا ادارہ ہے تو اس کے پاس اتنے اخراجات نہیں ہوتے جو بے روزگار نوجوانوں کو بغیر کچھ لئے نوکری دلوا سکے وہ فیس ادا کرنے کے لئے جب کچھ کر ہی لیتا ہے تو پھر اس دن جب اس نے ٹیسٹ کے لئے جانا ہوتا ہے تو اس مالک سے جھڑکیں سنتا ہے جس کے ہاں وہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی دکان پر وہ جھاڑو لگاتا ہو؟ وہ دکان کا مالک اسے باتیں سنا رہا ہوتا ہے اس کی ایک چھٹی کے عوض جو اس نے کرنا ہوتی ہے اور ٹیسٹ دینے کے لیئے جانا ہوتا ہے۔ پھر اس کی مزدوری اس کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے، اور جب اس کے پاس زاد راہ نہیں ہوتا تو پھر وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوتا ہے کس کے لئے؟ صرف اس نوکری کے لئے جس کے لئے اس کے والدین اس سے امیدیں باندھیں بیٹھے ہوتے ہیں۔ اپنے اور اس کے مستقبل کی۔ جب وہ جوان کمرہ امتحان میں پہنچتا ہے تو وہاں جا کربہت عجیب مناظر اسے دیھکنے کو ملتے ہیں کہ کوئی وزیر کی سفارش لا رہا ہے اور کوئی مشیرکی، کوئی پیسے دے رہا ہوتا ہے اور کوئی رشتے جوڑ کر نوکری لے رہا ہے۔ جبکہ اس کے پاس تو نہ دینے کے لئے پیسے ہوتے ہیں اور نہ اتنے اچھے تعلقات کہ وہ اپنی سفارش کر سکے یا کسی کو پیسے دے سکے۔

ابھی وہ کمرہ امتحان میں ہوتا ہے تو وہ امیدیں جس کو لے کر وہ پہنچتا ہے ٹوٹ چکی ہوتی ہیں۔ پھر وہ اپنے دل کو جھوٹی تسلی دیتے ہوئے اپنا امتحان تو دیتا ہے اس نظریے سے کہ اگر مالک کو منظور ہوا تو ہو سکتا ہے اس کو روزگار مل ہی جائے۔ ابھی وہ اپنا دکھ کہے تو کس سے کون سنے گا اس کی کہانی۔ یہ کہانی اس کی اپنی ہی زبانی تو ہےلیکن کس کو یقین ہو گا؟ اس نوجوان بے روزگار ہو جو برسوں سے نوکری کی تلاش میں تو ہے لیکن ہر طرف سے بس امید دکھا دی جاتی ہے لیکن کچھ دیا نہیں جاتا؟ یا اس جوان کو جو دو وقت کی روٹی کے لئے اپنے بوڑھے والدین کے لئے قرضہ لے رہا ہوتا ہے اس بھروسے پر کہ کل کو اسے سرکاری نوکری ملنے والی ہے جس کہ تحت وہ واپس لوٹا دےگا؟ یا ان وزراء کے عہد کو سامنے رکھتے ہوئے جو اونچے اونچے سٹیجوں پہ حق اور انصاف کے نعرے لگوا رہے ہوتے ہیں لیکن نوکری دیتے ہیں تعلقات کی بنا پر، آخر کیا کرے گا وہ؟

کیا یہ انصاف ہے کہ ملک کا سربراہ بنایا جائے اور اس کے لئے کوئی امتحان نہ ہو، اس کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ دوسروں کو نوکری تو دے لیکن خود کبھی کمرہ امتحان میں نہیں بیٹھا ہو؟ وہ کہتا تھا کہ ایسا کوئی نظام نہیں کہ ان افسران بالا کا بھی امتحان ہو۔ یہ صرف عوام کے منتخب کردہ نمائدگان ہی نہ ہو بلکہ اس ادارے کے بھی منتخب کردہ ہو جو نوکریوں کے حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ایک بندے کو پورے صوبے کے اختیارات دیئے جا رہے ہیں اور اس سے کوئی بھی ٹیسٹ نہیں لیا جا رہا، کوئی تمیز نہیں کے اس کی تعلیم کتنی ہے، کوئی ایف اے اور کوئئ بے اے ہو یا میڑک اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا، بس اس کے پاس مال و زر ہوتا ہے جس سے وہ لوگوں کے دل جیت رہا ہوتا ہے، اگر وہ بدمعاش ہو تو چوروں اور ڈاکووں کو تھانے کچہری سے سے واپس لانے میں مدد کر رہا ہے اور پھر وہ ہی لوگ اس کے اقتدار میں لا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس کی قابلیت نہیں بلکلہ اس کا خرچ کیا گیا پیسا ہے جو اس نے تھانے میں ایس ایچ او کو دیا، کچہری میں جج صاحبان کو دیا، کیا اس کی یہ ہی قابلیت ہے؟ کیا فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو حق حاصل نہیں ہے کہ ان کے امتحان لے پبلک سروس کمیشن کے پاس یہ اختیار کیوں نہیں ہیں؟ اور دوسری جانب اگر کوئی درجہ چہارم میں نائب قاصد یا چوکیدار بھرتی ہو رہا ہے تو اس کو بھی امتحان کے مراحل سے گزرنا پڑھتا ہے، کوئی ڈی پی او، ڈی سی او بنتا ہے تو بھی اس کو امتحان دینا پڑھتا ہے لیکن عجب بات ہے کہ جو لوگ ان کو ہائر کر رہے ہوتے ہیں انہیں ان کی ڈگریوں کے نام ہی نہیں آ رہے ہوتے جون ان بے روزگار نوجوانوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی اور والدین کی جمع پونجی کے سہارے حاصل کر رکھی ہوتی ہیں۔

اس کو حکومت کے افسران بالا اور افسران سے اتنا شکوہ تھا۔ کہنے لگاکہ ایک بار تو حد ہی ہو گئی۔ وزارت قانون انصاف اور انسانی حقوق میں میرا انٹرویو تھا کی عین وقت پر مجھ سے انٹرویوکمیٹی کے ایک ممبر نے سوال کیا کے بیٹا آپ کا سورس کون ہے، کس کو جانتے ہو اس ادارے میں، کون ہے جوآپ کو بھرتی کروا رہا ہے، میں تو حقا بقا رہ گیا کہ یہ کیسا سوال ہے؟ کیا سرکاری بھی سورس کی محتاج ہے؟ کیا یہاں پر بھی قابلیت کوئی معانی نہیں رکھتی؟ ساتھ ہی میں نے نہ میں سر ہلایا اور کہا کہ نہیں سر میں یہاں کسی کو نہیں جانتا اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے علاوہ میرا کوئی سورس نہیں ہے۔ پھر ان جناب نے مجھے جھوٹی تسلی و سہارا دیتے ہوئے کہاکہ اچھا بیٹا اللہ کرم کرے گا۔ تب میں سمجھا کہ مال و دولت اور تعلق کس حد تک کام آتا ہے، انصاف قائم کرنے والے ادارے خود کتنا انصاف کر رہے ہیں۔ تب سے لیکر آج تک بھی نوکری ڈھونڈ رہا ہوں لیکن کس کو قدر ہو گی کہ کوئی کس حال میں ہے۔ ہر ایک اخبار اس امید سے پڑھ لیتا ہوں کہ شاید اس میں کوئی نوکری ہو جو مجھے مل جائے، لیکن ان سب مشکلات کے باوجود وہ نوجوان مایوس ہو کر چلا گیا۔ کچھ ہاتھ نہ آیااس کے۔