1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. ہماری ترجیحات

ہماری ترجیحات

ایک چھوٹی سی مشق میں آج آپ کو دینےلگا ہوں۔ (مشق یعنی کہ ایکسرسائیز۔)کوئی مشکل مشق نہیں۔ بڑی آسان مشق ہے۔ کاپی پینسل اٹھائیں یا اگر سمارٹ فون ہے تو اس کا استعمال کریں۔

آپ اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں سے ملتے ہونگے، بہت سے لوگوں سے رابطے ہونگے۔ بہت سارے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوگا۔ ہر شخص کو ذہن میں لائیں جو آپ کے قریب ہے، جسے آپ جانتےہیں، جس سے بات چیت ہے۔ اور پھر کاپی پینسل یا سمارٹ فون کے نوٹ پیڈ پر ان کا نام درج کریں۔ پھر جتنی بھی شخصیات ہیں، ان کی ساری ناکامیاں اور کامیابیاں، جو آپ سے پوشیدہ نہیں، انہیں درج کریں۔ ہر قسم کی کامیابی یا ناکامی کو ذہن میں لائیں۔

اب ساری کامیابیاں آپ کے جاننے والوں کی آپ کے سامنے ہیں: چاہے وہ مناسب وزن ہو، اچھی تعلیم یا نوکری ہو، کامیاب ازدواجی زندگی ہو، کفایت شعاری ہو، وغیرہ وغیرہ۔ اب میں ایک سوال پیش کرنے جارہا ہوں۔ صحیح جواب دیجیے گا۔ کتنی کامیابیاں آپ کے جاننے والوں کی ریاست یا حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور کتنی ان کی اپنی ذاتی ترجیحات اور پسند اور ناپسند کا نتیجہ ہیں؟ آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ جواب کیا ہے۔

کوئی کفایت شعار بندہ اس لیے فضول خرچی نہیں کرتا کیونکہ کوئی وفاقی یا صوبائی افسر اس کام پر لگا ہوتا ہے۔ کوئی ورزش کرنے والا، صحیح کھانا کھانے والا، جو اپنے جسم کو طاقتور بنا بیٹھا ہے، وہ اس لیے یہ سب نہیں کرپایا کیونکہ وزیر اعظم یا وزیر اعلی کی یہ پالیسی تھی۔ آپ شاید والدین کو ذمے دار ٹھہرا سکتے ہیں۔ انہوں نے گھر میں ایسا ماحول پیدا کیا ہو کہ وہ شخص کچھ معاملات میں اول آئے۔

اور یہ معاملہ ہمارے ملک تک محدود نہیں۔ امریکا، یورپ، آسٹریلیا، یا کسی بھی ترقی یافتہ ممالک کا دورہ کریں۔ دورہ کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ انٹرنیٹ کا دور ہے۔ آپ یہاں اپنے وطن میں بیٹھ کر تحقیق کرسکتے ہیں۔ کتب منگواسکتے ہیں۔

وہاں آپ کو کئی نشئی ملیں گے، شراب نوشی کو انتہا پر پہنچانے والے ملیں گے، ساری زندگی فحش اور گندی حرکتیں کرنے والے ملیں گے۔

اب یہ گندی حرکتیں کرنے والے بھی اسی ملک میں پیدا ہوئے جدھر سٹیو جابز جیسے بندے اپنے شعبے میں انقلاب لائے، جہاں کے ایف سی کے بانی نے بوڑھی عمر میں ایک ایسی فرینچائز بنائی جو پوری دنیا میں آج کاروبار پھیلا کر بیٹھی ہے۔ کئی ایسے لوگوں کی کہانی آپ کو ملے گی جو چاندی کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے، لیکن اسی معاشرے میں رہ کر انہوں نے چرسی بننے کے بجائے، فحش فلموں میں کام کرنے کے بجائے، ریاست کے وضیفے پر اکتفا کرنے کے بجائے، اپنا لوہا منوانے کی کوشش کی اور کامیاب ہوئے۔

ساری کہانی ترجیحات کے ارد گرد گھومتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کی کئی رسومات ہمارے ملک میں جگہ بنا گئیں، لیکن اس کے باوجود کچھ رسومات کے لیے یہ ملک زرخیز ثابت نہ ہوا۔

گوروں نے کیک کاٹنا شروع کیا، چاہے وہ کیک ویلنٹائنز ڈے کا کٹتا ہو یا سالگرہ کا یا شادی کے جتنے بھی سال مکمل ہوں اس کا، ہم نے ان کی نقالی کرنا شروع کردی۔ پھر بات آگے بڑھی، سرپرائز کرنے کی بات آئی، ہم نے گوروں کے ہاں میں ہاں ملائی۔ پھر گوروں نے کیک اٹھا کر ایک دوسرے کے چہروں پر ملنا شروع کیا۔ ہم نے کہا جی حضور!اور کوئی حکم۔ اور پھر ہم نے بھی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم ایک غریب ملک کے باسی ہیں، کئی لوگ رات کو بھوکے سوتے ہیں، گوروں کی اس ضیاع خوری پر لبیک کہااور ایک دوسرے کے چہروں پر کیک ملنا شروع کیا۔ یعنی وہ ساری چیزیں جو کیک بنانے میں گئیں، وہ ساری غذا ہم نے چہرے پر مل کر اپنے ایک سال کم ہونے کی خوشی منائی۔ پھر ظاہر ہے، یہ چہرے پر ملا ہوا کیک تو ہم کھانے سے رہے، لہذا ہم نے صفائی کو نصف ایمان جان کر بعد میں منہ بھی دھو لیا۔ وہ انڈہ اور میدہ اور جو کچھ کیک میں جاتا ہے وہ نالی کی نذر ہوگیا۔

صرف یہ ہی نہیں۔ گوریوں اور گوروں نے کتے بلی پالنا شروع کیے، ہماری اشرافیہ نے بھی یہ کام اپنا لیا۔ پھر ان کتوں اور بلیوں کو اے سی والے کمرے میں پالا جاتا ہے، ان کی غذا بھی دیسی نہیں رکھی جاتی، خالصتاً در آمدی، خوبصورت تھیلیوں میں بھری ہوئی، غذا انہیں کھلائی جاتی ہے۔ جیسے ہم نے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں پیدا کردی ہیں، سب کھا پی کر مست سو رہے ہیں کہ اب بلی اور کتوں کی بھی عیاشی کا ہماری اشرافیہ بندوبست کرکے بیٹھی ہے۔

ابھی چند مہینوں پہلے جب درآمدات پر پابندی تھی، ملک میں ڈالر نہیں تھے (اب بھی نہیں ہیں)، لوگوں کی ایل سیز نہیں کھل رہی تھیں، لوگ پیڑول پمپز کی راہ لے رہے تھے کہ کہیں پیڑول بازار سے غائب نہ ہوجائے، تب میں نے کئی دکانوں میں ایسی خواتین دیکھی تھیں جو بلی اور کتوں کے درآمدی کھانے ذخیرہ کر رہی تھیں، اس خدشے سے کہ کہیں یہ چیزیں بازار سے غائب نہ ہوجائیں۔

ان مالدار عیاش لوگوں نے سوچا ہے کبھی کہ ان کے ملازم کیا سوچتے ہونگے؟ وہ کتوں اور بلوں کی عیاشی دیکھ کر کیا سوچتے ہونگے؟ خیر، گھریلو ملازمین سے ایک اور گوروں کی بات یاد آگئی۔

یو ٹیوب پر کئی گوریوں کے وی لاگز موجود ہیں جس میں وہ گھر کی صفائی کیسے کی جاتی ہے اس پر تفصیل سے وڈیو کے ذریعے اپنے ناظرین کو آگاہی دیتی ہیں۔ اب یاد رہے یہ جو گوریاں جو اس قسم کی وڈیوز بنا رہی ہیں، انہیں سپونسر بھی مل رہے ہیں، کوئی ویکیوم کلینر کا انہیں اشتہار مل جاتا ہے تو کوئی صاف صفائی کے لیے مخصوص سپرے کا اشتہار انہیں مل جاتا ہے، ساتھ ساتھ ان کی وڈیوز اتنے لوگ دیکھتے ہیں کہ انہیں اپنا چینل مونیٹائیز کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔

اب یہ گوریاں کوئی غریب گھرانے سے تعلق نہیں رکھتیں۔ ان کے گھر اور رہن سہن دیکھ کر آپ کو کہیں بھی یہ نہیں محسوس ہوگا کہ وہ اس معاشرے کی غریب ترین خواتین میں شمار ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ خود گھر صاف کر رہی ہوتی ہیں، ساتھ ساتھ ان کے اس کام کو کئی گورے دیکھ کر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ بھی گھر صحیح طرح صاف کرنا سیکھ لیتے ہیں۔ وڈیو میں آپ حیران ہونگے کہ بیت الخلا تک وہ گوریاں صاف کر رہی ہوتی ہیں۔ ساری پیچیدگیاں بیان کر رہی ہوتی ہیں کہ کیسے بیت الخلا کی صفائی بہتر، آسان اور سستی بنائی جاسکتی ہے۔

اب آجائے ہماری پاکستانی عورتوں کی جانب۔ تھوڑا پیسہ کیا آجائے میاں کے پاس، عورتیں گھر کے کام کرنا توہین سمجھ لیتی ہیں۔ تھوڑا بھی گھر مالی طور پر خوشحال ہونا شروع ہو تو اکثر گھروں کی عورتیں ماسی یا ملازمین کو رکھنا شروع کردیتی ہیں۔ بہت کم مالدار گھروں کی عورتیں آپ نے گھر کو جھاڑو مارتے دیکھی ہونگی یا گھر کے فرش کو مانجتے ہوئے۔

بات یہاں آکر نہیں رکتی۔ آپ کو ہمارے ملک میں جوتوں کی دکانیں بہت ملیں گی۔ کپڑوں کے برینڈز مل جائیں گے۔ بلکہ اتنے ملیں گے کہ آپ کو ان کے اعداد یاد کرنے میں دشواری پیش آئے گی۔ ریسٹورینٹز بھی بے شمار، دیسی اور بیرونی، مل جائیں گے۔ لیکن اسی تعداد میں کتابوں کی دکانیں نہیں ملیں گی۔ جوتے کپڑے اے سی والی دکانوں میں پڑے ملیں گے اور کتابیں پرانی دکانوں میں دھول جمع کرتی ملیں گی۔ کتاب کے شائقین آپ کو ملیں گے لیکن اتنے زیادہ نہیں۔

جن ملکوں سے ہم کیک کاٹنے کی رسمیں لے رہے ہیں اور بلی کتوں کو پالنے کی عادات حاصل کر رہے ہیں، وہاں بے شمار ایسے لوگ آپ کو ملیں گے جن کا واحد ذریعہ معاش قلم ہے۔ ان کی کتابیں اتنی بک جاتی ہیں کہ وہ اکیلے اس آمدن سے گھر چلا لیتے ہیں۔ بلکہ بڑے عالیشان طریقے سے چلا لیتے ہیں۔

دوسری طرف ہمارے ملک میں اب چند مصنفین نے تو اچھا خاصا کمانا شروع کردیا ہے، جیسے کہ ڈرامہ نویس۔ لیکن ٹی وی سے باہر، جو لوگ خالصتاً قلم اور کتاب کے ذریعے دوسروں تک پہنچنا چاہتے ہیں، ان کی حالت ہمیں اشفاق احمد صاحب کے ایک انٹرویو سے پتہ چلتی ہے۔

جب ان سے سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے پروگرام "ایک دن جیو کے ساتھ"(جو ابھی یوٹیوب پر بھی موجو د ہے) میں پوچھا کہ "آپ پاکستان کے نامور ادیب ہیں۔ کیا آپ کو آپ کو اپنی کتابوں سے اتنی رائلٹی ملتی ہے کہ اس سے آپ کا گزارا ہوسکے؟"اب یاد رہے انٹرویو کے دوران اشفاق صاحب یہ فرما چکے تھے کہ ان کی 28 کتب اس وقت تک چھپ چکی تھیں اور ان کی اہلیہ بھی ان ہی کی طرح مشہور مصنفہ اور ناول نگار تھیں، ان کی اہلیہ کی بھی کئی کتب اس وقت تک چھپ چکی تھیں۔ لیکن اس سب کے باوجود، انہوں نے وڑئچ صاحب کو ان کے سوال کا یہ جواب دیا: " نہیں!میں اپنی کتابوں کی رائلٹی پہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس میں اگر میری بیوی کی کتابوں کی رائلٹی بھی شامل کی جائے، تب بھی ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس کے علاوہ ہم کو کوئی اور کام کرنا پڑتا ہے۔ "

جبکہ دوسرے ملکوں میں صرف یہ نہیں کہ نامور مصنفین بہت اچھا کماتے ہیں، بلکہ کتابوں کے اوپر ٹی وی پروگرامز بھی ہوتے ہیں۔ کوئی شخص کتاب لکھے تو اسے مدعو کیا جاتا ہے۔ پرانی کتابوں کے اوپر بحث کے حوالے سے بہت سے پروگرامز ملیں گے۔ امریکا کے ایک چینل "سی سپین" کی ہفتہ وار خصوصی نشریات "بک ٹی وی " کے نام سے چلتی ہیں جس میں خالصتاً کتابوں کو وقت دیا جاتا ہے۔

اب آجائے ہمارے ملک کی میڈیا کی جانب۔ ایک وقت تھا جیو چینل "جیو مینٹری " کے عنوان سے بڑی خوبصورت دستاویزی فلمیں بنایا کرتا تھا۔ جس میں کبھی پاکستان کی تاریخ تو کبھی کسی اہم سماجی مسئلے پر بحث کی جاتی تھی۔ ظاہر ہے لوگوں کی دلچسپی اس طرف تھی نہیں۔ پروگرام ناکام گیا۔ آج ڈھونڈنے سے بھی آپ کو انٹرنیٹ پر بھی وہ دستاویزی فلمیں نہیں ملیں گی۔ مجھے یاد ہے 2011ء میں دنیا ٹی وی نے ایک دستاویزی فلم سقوط ڈھاکہ پر بنائی۔ میری دلچسپی اس دستاویزی فلم کے ذریعے اس موضوع پر پڑی۔ لیکن چینل مالکان نے دیکھا کہ اس قسم کے پروگرام چلتے نہیں۔ لوگوں کو وہ پروگرامز پسند ہیں جس میں سیاستدان، مختلف جماعتوں کے، ایک دوسرے سے اونچی آواز میں گفتگو کریں، ایک دوسرے کو گالیاں دیں۔ فضول سے نام نہاد "سینئر تجزیہ نگاروں"کے بے تکے تجزیے لوگوں کو پسند ہیں۔

اب اس ماحول میں کتاب کے اوپر بھلاکونسا ٹی وی چینل پروگرام کرے؟ اور اس میں غلطی کس کی ہے؟ کیا اس میں ریاست اور حکومت کی غلطی ہے؟ کیا حکومت لوگوں کو مجبور کرے گی کہ زبردستی وہ ٹی وی ڈرامے اور سیاستدانوں کی لڑائی چھوڑ کر کتب اور دستاویزی فلموں کو وقت دیں؟ کیا نواز شریف، عمران خان اور آصف علی زرداری ہمارے گھر آکر ہمیں بتائیں گے کہ ریموٹ کے ذریعے ہم کیا ٹی وی پر دیکھیں اور کیا نہ دیکھیں؟

حکمران کیا کریں گے، کتابوں کے حوالے سے ہمارا جو حال ہے وہ اوریا مقبول جان صاحب نے۔۔ جو آج بدقسمتی سے عشق عمران میں مبتلا ہیں، انہوں نے بانو قدسیہ (اشفاق احمد صاحب کی اہلیہ) کا انٹریو لیتے ہوئے، اپنے پروگرام "متبادل"(مورخہ 29 اگست، 2015ء) میں ایک مختصر سا قصہ سنایا تھا۔ آپ سنیے یا پڑھیے کہ وہ کیا کہتے ہیں:

"میں نے پچھلے دنوں انٹرویو کیے تو میں نے۔۔ لائبریرنز کے انٹرویو تھے۔ اس دوران میں نے ان سے پوچھا لڑکیوں سے، جو کہ لائبریرین بننا چاہتی تھیں، کہ آپ نے تازہ ترین کوئی کتاب پڑھی ہے؟ کوئی سی بھی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوئی تھی۔ "

مزید کچھ کتاب کے موضوع پر کہنے سے اب میں معذرت چاہوں گا۔

ہم نے دوسرے ملکوں کی اچھائیاں کم اپنائیں، لیکن ان کی بری عادتیں، فحش حرکتیں، گندی عادتیں، ہم نے بجلی کی رفتار سے بھی تیز ہوکر گلے لگا لیں۔ اور اس سب کے لیے ہمیں ریاست کی تھپکی کی کوئی ضرور ت پیش نہ آئی۔ یہ سب ہم نے خود اپنی مدد آپ کرلیا۔ کوئی ریاست نے ان کاموں کے لیے وضیفے اور سبسڈیاں مختص نہ کیں۔ خود بخود سمارٹ فون خریدنے کے لیے اور بیچنے کے لیے ہمارے پاس پیسے آگئے، کپڑوں کے برینڈز چمکانے کے لیے پیسے آگئے، رسٹورینٹز کو ریاست نے پروان نہیں چڑھایا، لوگوں نے کھانے کو ترجیح دی، لہذا یہ صنعتیں کامیاب ہوتی گئیں۔

آپ اپنی ترجیحات درست کریں، باقی معاملات خودبخود درست ہوتے جائیں گے۔ ورنہ صرف حکومتیں ہی تبدیل ہونگی، حالات نہیں۔

باشام باچانی

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔