1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. حسنین حیدر/
  4. روشنی اور اندھیرے کی جنگ

روشنی اور اندھیرے کی جنگ

جنگ سے کیا مراد ہے؟ جنگ ایسا مرحلہ کہ جب دو گروہ آپس میں لڑائی کریں، قتل و غارت انجام دیں، ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں۔ کیا ایک دوسرے کا قتل ہی جنگ ہے؟ نہیں۔ ایک دوسرے کو مالی و معاشی نقصان پہنچانا بھی جنگ ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے ہدف و دشمن کو زچ کرنا، زد و کوب کرنا جنگ ہے۔ اور یہ نقصان تجارتی مراکز، معاشی زخائر کو تباہ کرکے، یا اس جیسی دوسری صورتوں سے پہنچایا جاتا ہے۔

دنیا نے جیسے ہی ترقی کی، انسان نے ارتقا حاصل کیا، انسانی خرافات نے بھی نئی شکل اپنائی۔ آج کے دور میں جنگیں بھی نیا رخ پکڑ چکی ہیں۔ آج کے دور میں ان کیلئے نئی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، اور وہ سرد جنگ کی اصطلاح ہے۔ اس طرز میں آپ دشمن کی لانگ ٹرم پالیسز کو زچ کرتے، آپ دشمن کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرتے، دشمن کو فنی و تکنیکی میدان میں، تعلیم و صحت کے میدان میں، معاشی و ثقافتی میدان میں نقصان پہنچاتے ہیں۔ یا نفسیاتی طور پر مفلوج کرتے ہیں!

یوں تو دنیا بھر میں جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ کہیں عسکری تو کہیں معاشی، کہیں ثقافتی تو کہیں فن و تکنیک میں اور دنیا بھر کے کثیر لشکر اس میں حصہ لئے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہر ایک بشریت کیلئے کوئی 'انتہائی' ہدف رکھتا ہے، کسی نے بشریت کی لنکا پار لگانے کی ٹھانی ہے، نہ! آج کوئی لشکر یہ دعویٰ نہیں رکھتا کہ وہ دنیا کو امن و محبت، انسانی اقدار و وسائل کی نشو و نما اور انسان کو کمال تک پہنچانے کی بابت کی ہے مگر سوائے ایک کے کہ جو مقصدِ خلقتِ انسانی پر پورا اتر رہا ہے اور الہیہ وظائف کی تکمیل کیلئے کوشاں و برسرِ پیکار ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس بھیڑ و رش میں لشکرِ حق کی پہچان کیسے ہو؟ اس کیلئے ایک کُلیہ کہ روشنی کی پہچان اندھیرے کے ہونے سے ہے، یعنی ہر چیز اپنی 'ضد' رکھتی ہے۔ بجائے حق پہچاننے میں سرکرداں رہیں، ایک باب دشمن شناسی کا دیکھ کر، ایک چال دشمن کی سمجھ کر حق کی طرف چار قدم بڑھائے جائیں۔ اسی طرح ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ 'جب تمہارے لئے حق پہچاننا مشکل ہوجائے تو دیکھو کہ باطل کے تیر کس سمت کو جارہے ہیں!!!'

آج دنیا عالمی جنگ کا شکار ہے۔ اور یہ جنگ کہیں عسکری ہے تو کہیں معاشی، کہیں ثقافتی ہے تو کہیں وسائل لوٹنے کی جنگ ہے۔ اس وقت دنیا میں دو عنوانات سے صف آرائی ہورہی ہے یا ہوچکی ہے۔ یہ عنوانات حق اور باطل ہیں۔ باطل کثرت میں ہے اسکی ایک مثال نیٹو اتحادی افواج ہیں، انکا سرغنہ امریکہ ہے اور امریکہ کی پشت پر خفیہ شیطانی طاقتیں ہیں۔ اور اسکے مقابل محازِ حق پر موجود امامت اور اسکے معتقدین ہیں۔ اور امامت سرحدوں میں قید نظریہ و فکر اور رعایا نہیں۔ امامت کا ہر فرد کائنات پر امرِ الہی کو نافذ کرنے کا زمہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کی صورتیں بدلی ہیں تو امامت کے قائلین طرح طرح کی آزمائشوں اور مصائب میں گرفتار ہیں۔

اور اس سب میں شدت تب آئی جب انقلابِ اسلامیِ ایران 1979 کے بعد نعرہ بلند ہوا کہ 'خدارا خدارا تا انقلابِ مھدی عج خمینی ؒ را نگہدار!' کہ اے خدا تا انقلابِ امامِ مھدی عج جنابِ خمینی ؒ سلامت رہیں۔ کیونکہ؟ کیونکہ جو پرچمِ حق برائے ظہورِ امامت بلند کیا ہے، جو عَلَمِ زمینہ سازی اٹھایا ہے وہ جاکر امام عج کے ہاتھوں میں دیں۔ یہی وجہ تھی کہ سب سے زیادہ جو خطہ کسی بھی اعتبار و حوالے سے کسی سرگرمی میں رہا ہے، چاہے وہ فوجی ہو، عسکری ہو، صنعتی و تکنیکی ہو یا دیگر مسائل تو وہ یہی مشرقِ وُسطیٰ ہے۔ اسکی وجہ یہ کہ امامِ زمانہ عج کا ظہور اسی خطہ میں ہونا ہے۔ دوسرا دشمن کا میدان و صف آرائی اسرائیل کی صورت میں یہیں نمایاں ہوتی نظر آتی ہے۔

سوال ہے کہ دشمن کی سازشیں کیسی ہیں؟ امریکہ و طاغوتی طاقتوں نے سب سے پہلے لیبیا، عراق، پاکستان جیسے بڑے ممالک میں سیاسی تبدیلیاں پیدا کیں، ان تمام ممالک میں فوجی مارشل لا لگوائے اور اپنے پِٹھو افراد کو حاکمیت دلوائی۔ لیبیا تیل کے ذخائر سے مالامال اور مسلم دنیا میں ایک اہم ترین بڑا ملک ہے۔ عراق بھی تیل کے ذخائر سے مالامال ہے اور گریٹر اسرائیل تھیوری کے تحت آدھا عراق اس رقبے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ شام و مصر، کویت و بحرین اور سعودیہ عرب میں بھی اپنا اثر و رسوخ مضبوط کیا۔ قطر نے سر اٹھانا چاہا تو عرب لیگ میں اسے Isolate کیا، مجبوراً قطر بھی منافقت کی راہ اختیار کررہا ہے۔ انقلابِ اسلامی ایران کے بعد آٹھ سال تک صدام حسین کے زریعے اس پہ جنگ مسلط کی۔ پھر عراق و کویت کو آپس میں خلفشار میں دھکیلا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں فوجیں اتار دیں۔ ابھی یہ سب ناکافی تھا کہ اس خطے میں داعش کو لا کھڑا کیا۔ امریکی عہدےدار برائے خارجہ امور ہیلری کلنٹن کا بیان موجود ہے کہ اس نے کہا کہ مشرقِ وُسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہم نے داعش بنائی۔

داعش بنا کر شام و عراق پر قبضہ کیا جاتا، جو بائیڈن کے فارمولے کے تحت عراق کو تقسیم کیا جاتا، پھر امن کے نام پر نیٹو افواج داعش پر چڑھ دوڑتی اور مالِ غنیمت میں عراق و شام انکا ہوجاتا۔ یہی سب طالبان و القاعدہ کے ساتھ ہوچکا۔ سویت یونین میں طالبانوں اور القاعدہ کو خود بنایا، ہر طرح کا اسلحہ دیا جب سویت یونین کو شکست ہوئی تو نائن الیون کے زریعے جواز پیدا کرکے افغانستان پہ چڑھ دوڑے!

اس سب میں دشمن کی صف بندی کی کیا صورتِ حال ہے؟ جنوری 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق اب افغانستان میں 2500 فوجی troops موجود ہیں۔ اور کچھ اسی تعداد کے برار عراق میں موجود ہیں۔ کویت میں یہ تعداد تقریباً 13500 ہے۔ اور سعودیہ عرب میں gulf war کے دوران 5000 امریکی فوجی تھے جوکہ 2003 کے عراق تنازعے کے بعد 10000 ہوگئے۔ ساتھ ہی قطر میں بھی امریکی بیسز موجود ہیں۔

ایک سوال ہے کہ اس سب میں پاکستان کا کیا کردار ہے؟ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ 1979 کے بعد جہاں دنیا بھر کے ممالک خصوصا مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئیں، وہیں پاکستان میں بھی بہت کچھ بدلا۔ سب سے پہلے تو مارشل لا نافذ ہوا اور ایک محدود بصارت و بصیرت کا حامل شخص پاکستان پر حکمران بنا۔ جس کی نگرانی میں طالبانوں اور تکفیری جماعتوں کے تربیتی مراکز قائم ہوئے۔ سرکاری پروٹوکول کا یہ عالم کہ آج تک انکے بڑے یہ کہتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان اگر اجازت دے تو پاکستان میں کوئی بھی 'مخصوص شناخت' کا حامل شخص نظر نہ آئے۔ انقلابِ اسلامی کے بعد امام خمینی ؒ نے بیان جاری کیا تھا کہ ہمارا اسلامی انقلاب ایران تک محدود نہ رہے گا بلکہ پھیلے گا۔ اور خصوصیت کے ساتھ یہ کہا کہ پاکستان اور نائیجیریا دو ایسے ممالک ہیں جو ہمارے انقلاب کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

ایسے میں یہاں سید عارف حسین الحسینی ؒ کی زیرِ قیادت پاکستان میں انقلابِ اسلامی کی کوششیں شروع کردی جاتی ہیں مگر اول روز سے قوم کو تقسیم کرنے کیلئے یہاں سید حامد شاہ موسوی کو متعارف کروا دیا جاتا ہے۔ اندرونِ طور پر تقسیم کے علاوہ تکفیر کیلئے انجمنیں اور دہشت گرد گروہ سرگرم ہوجاتے ہیں۔ اور پاکستان میں شیعہ نسل کشی کا باضابطہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اور انفرادی قتلِ عام کے علاوہ درجنوں کے حساب سے لاشیں گرائی جاتی ہیں۔ کہیں تیس ستمبر کا واقعہ ہے تو کہیں عاشورہ کے دھماکے۔ اس سب کے علاوہ قوم کو گھروں میں محصور کرنے کیلئے جبری گمشدگیاں بھی انجام دی جارہی ہیں جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ کچھ پتہ نہیں کہ شاید اس کالم کے بعد ہمارا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو کیونکہ بظاہر یہ جمہوری ملک ہے مگر یہاں آزادیِ اظہارِ رائے نام کی کوئی چیز نہیں، شاید ہم deep state کے تحت یہاں آباد ہیں۔

جبری گمشدگان کیلئے ہمارا ایک واضح مٶقف ہے کہ اگر کوئی بھی باشندہ ریاستِ پاکستان کا آئین و قانون پامال کرتا ہے تو اس شواہد کے ساتھ عدالت میں پیش کرتے ہوئے متعلقہ قانون کی مد میں اسے سزا دی جائے۔ اور یہ سزا ملکی و معاشرتی استحکام کا باعث بنے گی۔ اگر یہ سب عالمی سامراج کی خوشنودی کیلئے ہورہا تو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات، گلگت و کشمیر اور افغانستان و ایران و عراق کے بعض علاقے قدیم خراسان کے نقشے میں شامل ہیں۔ اور ظہورِ امام مھدی عج کیلئے ایک لشکر خراسان سے نکلنا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ سعودی ولی عہد بن سلمان کے بیان کی طرح کہ ہم امام مھدی عج سے جنگ کرینگے مگر یمانیوں کے ہاتھوں نشانِ عبرت بن گئے!